کابل

ابتدا سے انتہا تک کا سبق

ابتدا سے انتہا تک کا سبق

 

محمد افغان

جب یہ معاملہ طے ہو کر نسلِ انسانی کے سامنے واضح ہو چکا ہے کہ اِس کائنات کو بنانے اور تخلیق کرنے والی قوت و طاقت کا نام اللہ ہے۔ اِس دنیا کا تمام نظام اُسی کے طے کردہ اُصولوں کے تحت ہی چلے گا تو کامیاب رہے گا۔ لہذا اِس تمہید و تعیین کے بعد نوعِ انسانی کو اپنی زندگی کے دن رات اُسی خالق و رب کے قواعد و ضوابط کے تحت گزارنے چاہییں۔ یہی وہ طریقہ ہے، جس میں انسان کی تمام جائز چاہتوں، تمناؤں اور ضرورتوں کی تکمیل کا راز پوشیدہ ہے۔ البتہ! جب خدائے بزرگ و قادرِ مطلق نے اپنے نظامِ اسلام اور قانونِ شرع کو اپنے آخری پیغمبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا تو اسے بہ یک جنبشِ قلم نافذ نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے ترتیب و تدریج کا بنیادی نکتہ سکھایا گیا، تاکہ اسلام کا انقلابی نظام صرف ہوا میں نہیں، بلکہ مخلوق کے دِلوں میں اپنے لیے جَڑ بنا کر قائم ہو جائے۔
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرا فکری مطالعہ یہ نکتہ واضح کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی مُہم جیسے تیسے کے طور پر نہیں چلائی تھی۔ آپ علیہ السلام کی دعوتِ توحید و رسالت مکمل طور پر منظم اور منصوبہ بند تھی۔ امام ابنِ قیم الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب زاد المعاد کی پہلی جلد کے صفحہ 84 پر دعوتِ اسلام کی ترتیب کے حوالے سے وضاحت تحریر کی ہے:
فِي تَرْتِيبِ الدَّعْوَةِ وَلَهَا مَرَاتِبُ: الْمَرْتَبَةُ الْأُولَى: النُّبُوَّةُ، الثَّانِيَةُ: إِنْذَارُ عَشِيرَتِهِ الْأَقْرَبِينَ، الثَّالِثَةُ: إِنْذَارُ قَوْمِهِ، الرَّابِعَةُ: إِنْذَارُ قَوْمٍ مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِهِ وَهُمُ الْعَرَبُ قَاطِبَةً، الْخَامِسَةُ: إِنْذَارُ جَمِيعِ مَنْ بَلَغَتْهُ دَعْوَتُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِلَى آخِرِ الدَّهْرِ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور نظامِ اسلام کے نفاذ کے چند مراتب تھے۔ پہلا درجہ نبوت ہے۔ (جس کے تحت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی گئی۔) دوسرا درجہ اپنے قریبی اعزہ و رشتے داروں کو (روزِ قیامت کے حوالے سے) ڈرانا اور خبردار کرنا تھا۔ تیسرے درجے کے طور پر اپنی قوم و قبیلے کو خبردار کرنا اور ڈرانا تھا۔ چوتھی سیڑھی کے طور پر ایسی لوگوں کو خبردار کرنا تھا، جس کے پاس ایک طویل عرصے سے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ اس درجے میں عرب کے تمام قبائل مُخاطَب ہیں۔ جب کہ پانچویں درجے کے طور پر دنیا فنا ہونے تک آنے والی تمام مُکلَّف مخلوقات یعنی جنوں اور انسانوں کو ڈرانا تھا۔ (اِنذار کا بنیادی معنی یہ ہے کہ مخاطَب کو ایسے طور پر کسی یقینی سخت معاملے سے بطور محبت ڈرانا اور خبردار کرنا ہے، تاکہ مخاطب اپنی لاعلمی اور بے خبری کی وجہ سے متوقع سختی کا شکار نہ ہو جائے۔ اللہ تعالی کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے لوگوں کو اِس لیے ڈرایا اور خبردار کیا جاتا ہے، تاکہ لوگ قیامت کے حساب کتاب سے بے خبر و بے پروا نہ رہ جائیں۔ کیوں کہ نظام کی درستی کے لیے کسی بھی بڑی قوت و طاقت کے سامنے جواب دہی کا احساس بھی ایک بنیادی نکتہ ہوتا ہے، جو لوگوں کو سیدھے راستے پر چلتے رہنے کے لیے مہمیز دیتا رہتا ہے۔)
یہی وہ پانچ مراحل تھے، جن کو قدم بہ قدم رُو بہ عمل لا کر اسلامی انقلاب برپا کیا گیا تھا۔ اِنہی مراحل کی ترتیب سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہم کسی بھی نئے کام کو عروج تک پہنچانے کے لیے چھلانگ لگانے کی عادت ترک کر دیں۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب ترین دین کو بھی انسانی فطرت کی رعایت کرتے ہوئے بہ تدریج نافذ کرایا ہے۔ ایک ہی مرحلے میں تمام کام کو انجام دے دینا معاملے کو کمزور اور بسااوقات نقصان دِہ بنا دیتا ہے۔ امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ اِسی صفحے پر دعوت کے انہی مراحل کی مزید تفصیل واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَأَقَامَ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ ثَلَاثَ سِنِينَ يَدْعُو إِلَى اللہِ سُبْحَانَهُ مُسْتَخْفِيًا، ثُمَّ نَزَلَ عَلَيْهِ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ۔ (الحجر:٩٤) فَأَعْلَنَ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّعْوَةِ وَجَاهَرَ قَوْمَهُ بِالْعَدَاوَةِ، وَاشْتَدَّ الْأَذَى عَلَيْهِ وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ حَتَّى أَذِنَ اللہُ لَهُمْ بِالْهِجْرَتَيْنِ.
نبیِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت عطا ہونے (اور اعلانِ نبوت) کے بعد تین سال تک مخفی طور پر دعوت کا نظام چلاتے رہے۔ تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الحجر کی آیت ٩٤ نازل ہوئی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ؛ “لہذا جس بات کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے، اُسے علی الاعلان لوگوں کو سنا دو اور جو لوگ (پھر بھی) شرک کریں، اُن کی پرواہ مت کرو۔” چناں چہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کو اعلانیہ طور پر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ جس کی پاداش میں کفار کی طرف سے بھی کھلم کھلا اذیت و ستم زدگی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت آپ کے اصحاب کرام کو بھی دل برداشتہ کر دینے والی تکالیف پہنچائیں۔ چوں کہ ابھی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دعوت کے لیے زورِبازو استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ابتدائی مراحل تھے، اس لیے کفار کی اذیتوں سے درگزر کرنے کی تلقین تھی۔ چوں کہ دوسری طرف کفار کی طرف سے پہنچنے والی پریشانیاں بھی ناقابلِ برداشت تھیں، اس لیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف بالترتیب دو ہجرتوں کا حکم دیا۔
اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سال کی مخفی دعوت کے بعد کھلم کھلا دعوت کا حکم دیا تو سورۃ الشعراء کی آیت 214-15 نازل فرمائی:
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ لا ۝ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ج ۝
اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو۔ اور جو مومن تمہارے پیچھے چلیں، ان کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکا دو۔
اللہ تعالی نے واضح اور کھلی دعوت کے لیے قریبی رشتے داروں کو بیان کیا ہے۔ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ‘روح المعانی’ میں مذکورہ آیات کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اگرچہ توحید و رسالت کی دعوت تمام انسانیت کے لیے ہے، مگر خصوصی طور پر اس کی ابتدا اپنے قریبی اعزہ و اقارب سے کی جائے گی۔ پھر بہ تدریج اس دعوت کو دوسرے لوگوں تک پھیلایا جائے گا۔ دعوت کے یہ تمام مراحل ترتیب وار چل رہے تھے۔ بہ یک وقت تمام پانچوں مراحل رُو بہ عمل نہیں تھے۔ اس لیے کہ دعوت کے میدان کو وسیع کرنے کے لیے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نئی دعوت کے معاملے میں لوگوں کی ایک مخصوص تعداد ہمیشہ مخالفت کرتی ہے۔ چوں کہ اسلام و کفر کا یہ مقابلہ ازل تا ابد جاری رہنا ہے، اس لیے جوں جوں اسلام کی دعوت میں وسعت آئے گی، تُوں تُوں کفر کی طرف سے مخالفت و مخاصمت میں بھی شدت پیدا ہوگی۔ اسی لیے دعوت کو جس قدر وسعت دینا مقصود ہو، اسباب کے درجے میں اس دعوت کے تحفظ و استحکام کے لیے پہلے سے میدان تیار رہنا ضروری ہے، تاکہ مخالفت کی شدت کے دوران ہماری دعوت ڈگمگا نہ جائے۔ اُس کی بنیادیں مضبوط ہو چکی ہوں۔ دل مکمل طور پر دعوت کے ایسے تابع ہو چکے ہوں کہ مشکل کا سامنا ہوتو دل مضبوط رہیں۔ وہ پریشان نہ ہو جائیں۔
امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے زادالمعاد کی تیسری جلد کے صفحہ 143 پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر کی دعوت کے اِن درجات کو یوں ذکر کیا ہے:
أَوَّلُ مَا أَوْحَى إِلَيْهِ رَبُّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنْ يَقْرَأَ بِاسْمِ رَبِّهِ الَّذِي خَلَقَ، وَذَلِكَ أَوَّلَ نُبُوَّتِهِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْرَأَ فِي نَفْسِهِ، وَلَمْ يَأْمُرْهُ إِذْ ذَاكَ بِتَبْلِيغٍ، ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْهِ: يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۝ – قُمْ فَأَنْذِرْ۝ (المدثر: ١ – ٢)] فَنَبَّأَهُ بِقَوْلِهِ: اقْرَأْ۝ وَأَرْسَلَهُ بِـ:يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۝ثُمّ؟ أَمَرَهُ أَنْ يُنْذِرَ عَشِيرَتَهُ الْأَقْرَبِينَ، ثُمَّ أَنْذَرَ قَوْمَهُ، ثُمَّ أَنْذَرَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْعَرَبِ، ثُمَّ أَنْذَرَ الْعَرَبَ قَاطِبَةً، ثُمَّ أَنْذَرَ الْعَالَمِينَ فَأَقَامَ بِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً بَعْدَ نُبُوَّتِهِ يُنْذِرُ بِالدَّعْوَةِ بِغَيْرِ قِتَالٍ وَلَا جِزْيَةٍ، وَيُؤْمَرُ بِالْكَفِّ وَالصَّبْرِ وَالصَّفْحِ. ثُمَّ أُذِنَ لَهُ فِي الْهِجْرَةِ، وَأُذِنَ لَهُ فِي الْقِتَالِ، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يُقَاتِلَ مَنْ قَاتَلَهُ، وَيَكُفَّ عَمَّنِ اعْتَزَلَهُ وَلَمْ يُقَاتِلْهُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِقِتَالِ الْمُشْرِكِينَ حَتّٰى يَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّٰہِ۔
اللہ تبارک و تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہلی وحی کے طور پر سورۃ العلق کی پہلی چند آیات نازل فرمائیں: “پڑھو! اپنے پروردگار کا نام لے کر، جس نے سب کچھ پیدا کیا۔” یہ آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتدا تھیں، جس میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ہی پڑھیں۔ جب کہ اس کی تبلیغ کے لیے ابھی کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا۔ البتہ جب آپ کو دین کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کے لیے تیار کیا اور حکم دیا گیا، تب سورۃ المدثر کی پہلی دو آیات نازل ہوئیں:
يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۝ – قُمْ فَأَنْذِرْ۝ (المدثر: ١ – ٢)
اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔
لہذا آپ علیہ السلام کو اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ ج۝ کے ذریعے نبی بنایا گیا اور يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۝ – قُمْ فَأَنْذِرْ۝ کے ذریعے رسول بنایا گیا۔ یعنی اب تبلیغ شروع کر دی گئی۔ لہذا اس کے بعد آپ کو بہ تدریج دعوت کے پانچ مراحل کو بالترتیب رُو بہ عمل لانے کے لیے لائحہ عمل دے دیا گیا۔ یعنی پہلے نبی بنائے گئے، بعد ازاں رسول بنا کر تبلیغ کا سلسلہ شروع کرایا گیا۔ جس میں بالترتیب قریبی رشتے داروں، اپنی قوم، تمام عرب اور پھر تمام دنیا کو دعوت کا مخاطَب بنایا گیا۔ دعوت کے اِنہی ابتدائی مراحل کی نزاکت کی بنیاد پر مکہ مکرمہ میں دس سال کے عرصے میں کفار کی اذیتوں کو برداشت کرنے کے حکم کے ساتھ کوئی بھی دفاعی یا اقدامی عمل کرنے سے روک دیا گیا، بلکہ کسی بھی جنگی عمل سے اِس طور منع کیا گیا کہ کفار کے ظلم و ستم پر صبر و درگزر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب معاملہ صبر و برداشت سے باہر ہو گیا، تب بھی دفاعی جنگ کے بجائے حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا۔
البتہ جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے کچھ عرصے بعد اہلِ اسلام کو کسی قدر اقتدار اور استحکام حاصل ہو گیا، تب مسلمانوں کو کفار کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا۔ پھر قتال و جہاد میں بھی اس ترتیب کو عمل میں لایا گیا کہ جہاد کے لیے پہلی اجازت کے طور پر یہ حکم دیا گیا کہ جو آپ کے خلاف جنگ کرے، آپ صرف اُسی کے خلاف مقابلے میں آئیں۔ جو کفار لڑائی کے لیے مقابلے پر نہ آئیں، اُنہیں کچھ نہ کہا جائے۔ یعنی صرف دفاعی جہاد کی اجازت تھی۔ جب مسلمانوں کا دفاعی جہاد میں رعب و دبدبہ قائم ہوگیا تو پھر تمام مشرکوں کے خلاف جہاد کا حکم نازل کیا گیا۔ حتی کہ اہلِ اسلام کی طاقت و شوکت قائم ہونے کے بعد ایک وقت آیا کہ تمام کفار کے خلاف دفاعی کے بجائے اقدامی جہاد کا حکم دے دیا گیا۔
اس تمام تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دینِ اسلام کے نفاذ و استحکام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اپنے نظام و کام میں ابتدا سے انتہا تک پہنچنے کے لیے بنیادی اور نازک مراحل کو رُو بہ عمل لانے کے لیے تدریج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وہ فطری راستہ ہے، جسے بجائے خود رب تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے ذریعے امت کو سکھایا ہے۔ اگر کسی بھی تحریک اور تنظیم کو ترقی و عروج حاصل کرنا ہے تو یہی منصوبہ بندی کامیابی کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے۔