احمق دشمن کا بے جا پروپیگنڈہ

آج کی بات: ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ حقائق کبھی نہیں چھپتے، زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے وہ بے سود ہے  لیکن کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے  ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ مجاہدین کی فتوحات کی خبروں کو یا تو بالکل […]

آج کی بات:

ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ حقائق کبھی نہیں چھپتے، زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے وہ بے سود ہے  لیکن کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے  ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ مجاہدین کی فتوحات کی خبروں کو یا تو بالکل جھٹلائیں یا اسے غیروں کی مدد کا نتیجہ قرار دے دیں۔

افغانستان کی تاریخ سے لاعلم کابل کٹھ پتلی حکومت ملک کے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں جاری جہادی جدوجہد کو پاکستان کی طرف منسوب کر رہی ہے۔ جب مجاہدین افغانستان کے کسی حصے میں  دشمن کے زیر کنٹرول علاقے پر قبضہ کرتے ہیں تودشمن بڑی ڈھٹائی اور بزدلی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ یہاں اس جنگ میں مجاہدین کی رہنمائی پاکستانی جنرلز کر رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے امارت اسلامی بہادر مجاہدین نے پکتیا کے ضلع جانی خیل کو مکمل طور پر فتح کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے فرار پر مجبور کیا تھا ۔ اس کاروائی میں مجاہدین کو 15 ٹینک ، 16 رینجر گاڑیاں اور درجنوں کی تعداد میں ہلکے اور بھاری ہتھیار مجاہدین نے غنیمت کیے تھے۔ دشمن نے  اپنے مغربی آقاوں کی فضائی مدد کے باوجود کئی بار اس ضلع پر قبضہ کرنے کی  غرض سے آپریشن کیے لیکن ہر مرتبہ اللہ تعالی ٰ کی مدد سے  شکست کھاکر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

دشمن نے جانی خیل  میں اپنی شکست سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اس بار بھی یہ دعویٰ کیا کہ مجاہدین کے ساتھ پاکستانی فوجی بھی جنگ میں شامل ہیں اور اس پروپیگنڈے میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ : پاکستانی طیارے سرحد پار سے طیاروں کے ذریعے  مجاہدین کو جانی خیل منتقل کر رہے ہیں اور مجاہدین کے زخمیو ں کو بھی یہاں سے نکا ل کر لے جارہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کابل  کی غلام انتظامیہ کا اس قسم کا جھوٹا دعویٰ جھوٹ پر مبنی نہ ہو تو ان کے اسٹرٹیجک آقا غیر ملکی جارحیت پسند ممالک  جو افغانستان کی فضائی حدود کو کنٹرول کر رہے ہیں کیوں پاکستانی طیاروں کی راہ نہیں روکتے تاکہ ان کے  نصب شدہ مہروں کو مشکلات سے نجات ملے؟

اگر کابل کی غلام حکومت  کا دعوی ٰ سچا ہے تو غیر ملکی قوتیں  کیوں اپنے مسلح غلاموں کو مجاہدین سے نجات دلانے اور انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے سے نہیں  روکتے۔ کیوں کہ انہیں غیر ملکی جارحیت پسندوں نے اپنے مفادات کی خاطر مناصب سوپنے  ہیں۔

اور اگر کابل کی غلام انتظامیہ کا دعویٰ سفید جھوٹ پر مبنی نہ ہو ، پھر تو اس مسئلے کو وزارت خارجہ کے ذریعے پاکستان سے شکایت کر نی چاہیے، کیوں اس کے ثبوت دنیا کے سامنے نہیں لائے جاتے، یا کم سے کم کابل انتظامیہ کابل میں پاکستان کے سفیر سے ایک رسمی احتجاج  کر لیتے۔

کابل کے غلام حکام نے ان مجاہدین کے ساتھ پاکستان  کی فوجی امداد کا دعویٰ ہلمند، قندوز اور حتیٰ کہ سرِ پُل اور بادغیس میں بھی کیا جو پاکستان کے سرحد سے  تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

کابل حکومت غیروں کی امداد کے علاوہ سانس بھی نہیں لے سکتی اس لیے ان کا خیال ہے کہ مجاہدین کو بھی غیروں کی مدد حاصل ہوگی۔ اللہ کی نصرت اور عوامی حمایت سے محروم دشمن مجاہدین کو بھی اپنی حکومت پر قیاس کر رہے ہیں۔ دشمن کی آنکھوں پر مادیات کی پٹی بندھی ہوئی ہے اللہ کی غیبی نصرت پر وہ بھروسہ نہیں رکھتے،ان کی ساری توجہ مادیات، غیر ملکی جارحیت پسندوں  کے فوجی اور مالی  امداد پر ہے۔

لیکن مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور عوام کی بھرپور حمایت ہے۔اسی لیے دشمن کی نسبت تہی دست ہوکر بھی دشمن کو شکست سے دو چار کیا ہے ۔

دشمن جتنا اور جس راستے سے بھی حقائق کو چھپانے کی کوشش کریں، مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ کریں وہ بے جا ہے۔ حکومت کا عوام  کے بارے میں یہ خیال کے وہ ان کے جھوٹے پروپیگنڈے پر یقین کر لیں گے ، یہ دشمن کی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔