کابل

اسلامی مقدسات کی توہین، مسلم ممالک کیا کریں ؟

اسلامی مقدسات کی توہین، مسلم ممالک کیا کریں ؟

ماہنامہ شریعت کا اداریہ

یورپ میں روز افزوں سفیدفام نسل پرستی اوراسلاموفوبیا کے باعث ایک بارپھر قرآن کریم کی توہین کا افسوس ناک، قابل نفرت اور ناقابل قبول واقعہ پیش آیاہے- شمال یورپی ملک سویڈن کے دارالحکومت میں حکومت کی اجازت،پولیس اورحکومتی عمال کی موجودگی اور حفاظتی تحویل میں ایک ملعون کے ہاتھوں قرآن کریم کی توہین اور اسے نذرآتش کرنے کے الم ناک واقعے نے تمام عالم اسلام اور دنیابھر میں رہنے والے مسلمانوں میں شدیدغم وغصے کی لہر پیدا کردی ہے- دنیابھر کے مسلمان اس دلگداز سانحہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اورساتھ او آی سی اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ سویڈن کے خلاف قرارداد منظور کرکے کارروائی کریں۔ مسلمان عملی اعتبارسے کتنا ہی کمزورہو، دینی مقدسات کی بے حرمتی پر وہ مشتعل ہوجاتاہے، وہ اپنی جان،مال آبرو حتی کہ اپنا سب کچھ ان مقدسات پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب میں جب بھی اس طرح کے واقعات ہوۓ، دنیا بھر کے مسلمانوں نے پرجوش انداز میں اپنے ردعمل کا اظہارکیا، اس میں وہ مسلمان تارکین وطن بھی شامل ہیں جو ان ممالک کی شہریت حاصل کرچکے ہیں یاقانونی طورپر وہاں مقیم ہیں۔ جی ہاں! عملی سطح پر کمزوریوں کے باوجود عقیدے اور نظریے کی سطح پر مسلمانوں کے لیے اپنے وجود، تشخص اور ملت کوبرقرار رکھنا اس امرکامتقاضی ہے کہ مسلمان اپنے مقدسات کے احترام پر پہرا دیں اور مغرب کو کسی بھی عنوان کی آڑمیں بے حرمتی،عدم احترام اور تنقیص وتوہین کی اجازت نہ دیں- مسلمانان عالم نے بے حرمتی کے حالیہ سانحہ کے مقابل میں شدید رد عمل ظاہر کرکے دنیا کوپیغام دیا کہ پستی کے باوجود ان پر ایسا وقت اب بھی نہیں آیا کہ وہ دین کی حرمت اور تقدیس کے معاملے میں لاتعلق ہوکر بیٹھ جائیں، پوری مسلمان ملت اس احساس کے تحت یک جا ہوجاتی ہے کہ وہ ایک خدا، ایک رسول،ایک قرآن اور ایک دین کے ماننے والے ہیں اوریہی جذبہ پوری امت کو ایک اکائی بناکر متحد ومتفق کرتاہے – یہی وہ نظریہ وعقیدہ ہے جو کہ تمام مسلمانوں کو ایک ملت اور وحدت کی ایک لڑی میں پروتاہے اس لیے مسلمان کسی بھی صورت احترام وعقیدت اور محبت کے ان نظریات سے سبکدوش نہیں ہوسکتے، جوکہ ان کی گھٹی میں پڑے ہیں اور گویا ان کے خون کا حصہ ہیں۔

ان مذموم حرکات پر مغربی حکومتیں رسمی طورپر اظہار افسوس یا اظہار مذمت کردیتی ہیں اور بس- جب ان سے ایسے بدبختوں کو سزا دینے کامطالبہ کیا جاۓ تو کہتے ہیں: اظہار راۓ اور پریس کی آزادی ہمارے تمدن کاحصہ ہے- وہی مغربی اقوام جن کی حکومتیں مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت رسانی کے جرم کو پریس کی آزادی اوراظہار راۓ کی آزادی کے پرفریب نعروں کی آڑ میں تحفظ دیتے ہیں، وہاں اگر ہولوکاسٹ کا کوئی انکار کرے یا اسے محض پروپیگنڈا قرار دے، تو یہ اہل مغرب کے نزدیک قابل تعزیر جرم ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس کے ذریعے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے- ان کے نزدیک سولہ ملین یہود کی دل آزاری جرم ہے، مگر پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری سرے سے جرم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک قابل افسوس یا قابل مذمت فعل ہے- اس سے مسلمانوں اور حصوصا ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اپنی قدرومنزلت کا اندازہ لگالینا چاہیے، کہ دنیا محض تعداد کو نہیں دیکھتی- عسکری قوت عالمی سیاست، عالمی معیشت اور عالمی امورمیں اہمیت کو دیکھتی ہے- اکثر اسلامی ممالک میں حکمران اور اشرافیہ، نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور ہوس اقتدارکے غلام بن کر مغرب کے سامنے سرنگوں ہیں، ایمانی غیرت ناپید ہے قرآن اور قرآنی تعلیمات کو طاق نسیان پر رکھ دیا گیا اس لیے عالم میں ہماری اہمیت باقی نہیں رہی، ہمیں اگر معزز بننا ہے تو قرآنی تعلیمات پرعمل اور سنت کی پیروی کرنا ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ ان جیسے دلخراش واقعات کا سد کیسے کیا جائے ؟ اس سلسلے میں سب سے مؤثر راستہ معاشی بائیکاٹ کا ہے کیونکہ آج کل معاشی تعلقات پر ہی ممالک کے درمیان تعلقات استوار رہتے ہیں ۔ دنیا میں رہنے والے تمام مسلمان اگر سویڈن مصنوعات کا بائیکاٹ کرلیں، مسلم ممالک سویڈن پر پابندیاں لگادیں اور سویڈن کا ساتھ دینے والے ممالک سے بھی معاشی تعلقات منقطع کرلیں تو یقینامسلمانوں کی ایک بھت بڑی آبادی وہ نظرانداز نہیں کرسکیں گے- او آی سی اقوام کے دوسری سب سے بڑی تنظیم ہے- اس میں تقریبا ڈیڑھ ارب مسلم آبادی اورستاون رکن ممالک، جو دنیا کے ستر فیصد توانائی ذرائع اور چالیس فیصد خام مال کے مالک ہیں، شامل ہیں اس لیے اب او آی سی دوٹوک بات کرے اور پہلے یورپی یونین سے بات چیت کے ذریعے سمجھاوے اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو پھر سب مسلم ممالک اس شرانگیز عمل کی پشت پناہی کرنے والی ریاست کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کریں- اس کے ساتھ مسلم ممالک مشترکہ طورپر جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلائیں اور اسلام سمیت تمام مذاہب کی علامتوں ،مقدس کتابوں، شخصیات اورعبادت گاہوں کی بے حرمتی کوجرم قرار دینے کےلیے ضروری قانون سازی کروائیں اور اجتماعی حکمت عملی مرتب کرکے مذہبی منافرت اور اسلامو فوبیا کی مستقل روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں ۔ فی الفور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے اس میں انسانی حقوق کی اس بدترین خلاف ورزی پر پوری تیاری کے ساتھ موقف پیش اور قرارداد پاس کروائی جاۓ۔

یاد رکھیۓ! اس دلخراش واقعے کے بعد عالم اسلام کی جانب سے احتجاج اورسویڈش مصنوعات کابائیکاٹ محض ایک کمزور، ردعمل ہے، احتجاج کمزورلوگ کرتے ہیں- طاقتور احتجاج نہیں کرتے، وہ تو ظالم کابازو مروڑتے ہیں- بلاشبہ اس وقت ہم کمزور ہیں، گستاخوں کوسزا دینا، ان سے بازپرس اور ان کا بازو مروڑنا ہماری بس کی بات نہیں، احتجاج اور بائیکاٹ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن بھی موجود نہیں ہے- لیکن یہ واقعہ ہمیں جھنجوڑنے کے لیۓ کافی ہے- ہمیں اگر طاقتور اور معزز بنناہے تو قرآن اور سنت کو تھامنا ہوگا۔ فی الحال قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں سے انتقام قرآن پاک پر عمل کرکے لیاجاسکتا ہے، آئیں! آج یہ عہد کریں کہ قرآن کے مقصد کو سمجھیں گے، روزانہ اس کی تلاوت کریں گے اور بڑے بڑے قرآن کے محفلیں منعقد کرکے سویڈش جکومت کے منہ پر طمانچہ مارکے انہیں یاد دلائیں گے کہ ہمارے اسلاف نے اس کتاب کو تھام کر سینکڑوں سال اس دنیا پر حکومت کی اور اب ہم وہ دور لا ئیں گے ان شاءاللہ- تقدیس قرآن کریم کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ مسلم امہ غیرمسلم دنیا کو اسلامی عقائدونظریات، طرز زندگی اور اس کے پیام امن وسلامتی کے متعلق دعوت وآگہی کا اہتمام کرے۔ اسلام کی خاطر کٹ مرنے والے مسلمانوں ! اس دور کے حکمرانوں سے امیدیں چھوڑیں اورقرآن پاک کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے ساری دنیا کو بتائیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا۔