کابل

اسلامی نظام سے خوف کیوں!؟

اسلامی نظام سے خوف کیوں!؟

 

خزیمہ یاسین

سیکولرازم پر جان قربان کرنے والے حلقے قرآنی نظام کے نفاذ سے صرف اِس لیے خوف کھاتے ہیں کہ اُنہیں عارضی سانسوں کے سہارے چلتی زندگی کی ناجائز عیاشیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ورنہ کیا سبب ہے کہ کوئی فرد اسلام کا دَم بھرے، لیکن جب نظامِ اسلام کے نفاذ و اِجرا کی بات ہو تو اُس کے چہرے کے رنگ تہس نہس ہو جائیں۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور دل کپکپانے لگ جائے۔ جب بھی اسلامی نظام کا شعور بیدار ہوتا ہے، تب ہی اِن سیکولر اور دین سے دُور حلقوں کی جانب سے یہ ڈر ظاہر کیا جاتا ہے:
“کیا اب آپ پوری دنیا کو ‘ہتھ کٹا’ بنانا چاہتے ہیں؟ کیا لوگوں کو کوڑے لگانے کی تہذیب زندہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے ارادے یہ ہیں کہ اب دوبارہ تلوار سے گردنیں اُڑا دی جائیں؟”
سوال یہ ہے کہ سیکولر اور دین سے دُور لوگ اپنا یہ ڈر ظاہر کر کے کیا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود چور ہیں کہ اگر اسلام آ گیا تو اُن کے ہاتھ کٹ جائیں گے؟ کیا وہ کوڑوں کا خوف اس لیے کھا رہے ہیں کہ وہ ناجائز تعلقات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں؟ کیا اُن کے دِلوں کی دھڑکنیں اِس لیے تیز ہو گئی ہیں کہ وہ کسی کا قتل کر کے چھپے ہوئے ہیں؟
اگر تو ایسا ہے تو پھر اُنہیں سمجھنا چاہیے کہ بنیادی طور پر یہ معاشرے کا وہ ناسور ہیں، جو اپنی چوری، اپنی شراب نوشی اور اپنے ناجائز تعلقات کے ذریعے اسلامی تہذیب و تمدن کے ساتھ دشمنی کر کے لوگوں کی دنیا اور آخرت برباد کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو ایک ایسا جہنم بنا رہے ہیں، جہاں لوگ امن و سکون حاصل نہ کر سکیں اور اُنہیں ہر طرح کی ناجائز عیاشیوں کی چُھوٹ ملی رہے۔ اگر واقعۃ ایسا ہی ہے تو پھر اِن مجرموں کو اسلام سے نہیں، اپنے بُرے اعمال کے انجام سے ڈرنا چاہیے۔وہ اپنی ناجائز من مانیوں پر اسلام کی حدود و تعزیرات پر تنقید کر کے پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
افغانستان میں امارت اسلامیہ کے اقتدار سے پہلے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے لوگ حکومت کر چکے ہیں۔ اُن کے دَور میں جیسی بدامنی اور لُوٹ مار رہ چکی ہے، وہ داستان کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حتی کہ اقوامِ متحدہ تک کے مختلف اداروں نے بھی مذکورہ دونوں صاحبان کے دور میں وسیع پیمانے پر ہونے والی کرپشن اور مالی غبن جیسے بھیانک جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ یہ اعتراف بایں معنی کہ اقوام متحدہ کی اُس امریکا کے سامنے ایک بِکی ہوئی لونڈی سے زیادہ حیثیت نہیں ہے، جس نے اپنی طاقت کے غرور میں افغانستان پر فوج کشی کی، مگر انجام بھی بھگت لیا۔ اگر امریکا کی لونڈی بھی اپنے ہی لوگوں کے دورِحکومت کو ناسور کہہ رہی ہے تو یہ سمجھنے میں کیا مشکل ہو سکتی ہے کہ تب کے عہدے دار کس قدر لوٹ مار اور قوم کا مال چوری کر چکے ہوں گے۔ اب ایسے چوروں کا یہ کہنا بجا ہے کہ “اگر اسلام نافذ ہو گیا تو کیا اسلام کے نام لیوا پورے کے پورے شہروں کو ہتھ کٹا بنا دینا چاہتے ہیں؟”
امارتِ اسلامیہ کا افغانستان سب کے سامنے ہے۔ کہیں کسی لبرل کو غریبوں کا مال لُوٹنے والا ہتھ کٹا نظر آیا ہے؟ کہیں سرِعام اور بے تحاشا کوڑوں کی تہذیب دِکھائی دی ہے؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی حدود و تعزیرات بجائے خود اس قدر اثرانگیز ہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی نافذ ہوں گی، وہاں امن و امان کی سلامتی، مال و دولت کی حفاظت اور انسانی جانوں کی قدر و وَقعت خود بخود بحال و مستحکم ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر اللہ تعالی نے اسلام و قرآن کا مزاج ایسا رکھا ہے کہ یہ جہاں بھی نافذ ہوں گے، اپنے وجود، بقا اور استحکام کے لیے خود ہی ماحول سازگار بنا لیتے ہیں۔ اس لیے اسلام کے نفاذ سے پہلے اپنے دماغوں میں اس وسوسے کی پرورش کرنا کہ نفاذ سے پہلے معاشرے کی تربیت کی جائے اور اُسے اسلام کے لیے راضی و تیار کیا ہے، خودفریبی اور اپنی چوری پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دنیا میں بیشتر جگہوں پر اب بھی حدود و تعزیرات کسی نہ کسی درجے میں نافذ ہیں، مگر وہاں کسی کو بھی ہتھ کٹوں اور گردن زدوں کا شہر نظر نہیں آئے گا۔ اسلام کی طرف سے لوگوں کی بھلائی اور خیرخواہی کے لیے مقرر سزائیں، یعنی حدود و تعزیرات خود میں اِس قدر طاقت وَر اور پاور فل ہیں کہ اِن کا صرف کتابی و اعلانی وجود ہی انسانوں کو جرائم سے روکنے کے لیے کافی ہے، چہ جائے کہ وہ عملی صورت میں سامنے آ کر لوگوں کے دلوں کو راہِ راست پر رکھیں۔ کیوں کہ اسلام کی حدود و تعزیرات صرف یہ نہیں کرتیں کہ وہ کسی کو مجرم ثابت ہو جانے پر اُسے متعلقہ سزا کے عمل سے درست راہ دکھاتی ہیں، بلکہ ان حدود کی بنیادی صفت، خصوصیت اور برکت ہی یہ ہے کہ یہ اپنی اثرانگیز طاقت کی بدولت کسی بھی انسان کو جرم کرنے سے باز رکھتی ہیں۔ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یعنی جب جرم ہی نہیں ہوگا تو سزا کا نفاذ کیسے ہوگا؟! اور اسلام کی یہی وہ کامیابی ہے، جو مغرب کو قابلِ قبول نہیں ہے۔
افغانستان میں امارتِ اسلامیہ نے حدود و تعزیرات کے حوالے سے بہترین لائحہ عمل سامنے لا کر دنیا کو واضح کر دیا ہے کہ جب اسلام کو اپنے سینے سے لگایا جائے اور مسلمانوں کو قدرت و حکومت حاصل ہو جائے تو وہاں اسلام غالب ہو کر رہتا ہے۔ یہی بات دوسرے الفاظ میں یوں کہی جانی چاہیے کہ جب مسلمانوں کو طاقت و اقتدار ملتا ہے، تب حقیقی معنوں میں انسانوں کو راحت و امن اور حفاظت و سکون حاصل ہوتا ہے۔ توحید و رسالت کا بول بالا، امن و امان کی فراہمی اور جان و مال کی حفاظت کا ہی پہلا نام ‘اسلام کا غلبہ’ ہے۔
یہ مغربیت زدہ سوچ ہے کہ موجودہ نئی دنیا میں اسلامی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حقیقت سے آنکھیں چُرانے پر سورج غروب نہیں ہو جاتا۔ اسلام صرف چودہ سو سال پہلے کے دَور کے لیے نہیں آیا تھا، اسلام قیامت تک باقی اور نافذرہنے کے لیے آیا ہے۔اِس کی بقا اور اِس شان و شوکت ہی اس کے مزاج میں موجود ہے۔ یہ ہر زمانے میں کامیاب ہے۔ یہ اپنی کامیابی کے لیے لوگوں کے مزاج کو اپنے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ البتہ اگر کوئی روشنی میں ہی نہ آنا چاہے، اُس کا معاملہ مختلف ہے۔ سیکولر یا چور حلقوں کو اپنے مخصوص خوف اور ڈر کو چھپانے کی خاطر ‘دہشت ناک سزاؤں’ کی اصطلاح گھڑ کر اب یہ پروپیگنڈا چھوڑ دینا چاہیے کہ “اسلام کے نفاذ کے لیے اوّلاً ماحول ہی موجود نہیں ہے۔ اور دوم یہ کہ ہتھ کٹوں کا شہر ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔”
امارت اسلامیہ نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اوّل تو اسلام ماحول کے سازگار ہونے کا محتاج نہیں ہے، لہذا یہ ماحول سازگار ہونے کا انتظار نہیں کرتا۔ قرآنی نظام اپنی راہ خود بنا لیتا ہے۔ اور دوم یہ کہ اگر کسی شخص کو واقعی مجرم ثابت ہو کر اسلام کی متعلقہ حد یا تعزیر کا سامنا کرنا پڑے تو اِس عمل سے ہی دیگر مجرم مزاج لوگوں کی ہوا بکھر جاتی ہے۔ جس سے معاشرہ جرائم کی آماج گاہ بننے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔