افغانستان فروری 2021 میں

تحریر: احمد فارسی نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔ فروری 2021 کا مہینہ جنوری کی طرح امن اور جنگ کے درمیان غیر یقینی صورتحال کے ساتھ شروع […]

تحریر: احمد فارسی

نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔
فروری 2021 کا مہینہ جنوری کی طرح امن اور جنگ کے درمیان غیر یقینی صورتحال کے ساتھ شروع ہوا اور اختتام پذیر ہوا، اس ماہ کے دوران پائے جانے والے مسائل کے باوجود بین الافغان مذاکرات وقتا فوقتا ہوتے رہے، دوسری جانب عسکری محاذ پر بھی فریقین نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا، ان اور دیگر اہم واقعات کی رپورٹ مندرجہ ذیل سطور میں پڑھ سکتے ہیں۔
افغان فورسز کے نقصانات:
اگرچہ ماہ فروری کے دوران دشمن کے سیکڑوں فوجی، پولیس اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے تاہم ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکی ہے، اس لئے ابھی تک پوری رپورٹ تیار نہیں کی گئی ہے، تاہم بطور مثال 3 فروری کو ننگرہار میں ایک جج کو ہلاک کیا گیا۔ 4 فروری کو صوبہ ہرات کے ضلع غوریان کا سیکیورٹی چیف مارا گیا۔ دشمن کی ہلاکتوں کے بارے میں مکمل رپورٹ الفتح آپریشن کے عنوان کے تحت رپورٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
نہتے شہریوں پر تشدد:
یکم فروری کو قندھار میں افغان سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں نے ہلال احمر کے ایک مقامی اسپتال کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا۔ اگلے روز صوبہ قندوز کے عوامی مقامات پر فضائی حملے کیے گئے جس میں 10 افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔ 3 فروری کو صوبہ فراہ میں افغان فورسز کے حملے میں ایک مسجد شہید ہوئی۔ 17 فروری کو صوبہ ہلمند میں دشمن کی گولہ باری سے 16 شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ 24 فروری کو صوبہ دایکندی میں افغان فورسز کے فضائی حملے میں 28 شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ مذکورہ بالا واقعات کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ شہری ہلاکتوں کی مکمل رپورٹ امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خصوصی رپورٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ:
21 فروری کو امارت اسلامیہ نے اعلان کیا کہ ماہ جنوری میں کابل انتظامیہ کے 1300 سے زائد اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
اس سلسلے میں 4 فروری کو بلخ میں دشمن کے 61 اہلکار اور پھر 13 فروری کو مزید 52 اہل کار مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہوئے۔
سرنڈر ہونے والے اہل کاروں کی مکمل تفصیل امارت اسلامیہ کے متعلقہ کمیشن کی رپورٹ میں ملاحظہ کیجئے۔
الفتح آپریشن:
فروری کا مہینہ امن اور جنگ کی توقع کے درمیان اختتام پذیر ہوا اور اس ماہ کے دوران مجاہدین کی کامیاب کارروائیوں کی کچھ جھلکیاں درج ذیل ہیں:
3 فروری کو صوبہ روزگان میں دشمن کے 18 فوجی کار بم حملے میں مارے گئے، اگلے دن صوبہ قندوز میں صوبہ قندوز میں 16 فوجی مجاہدین کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگئے، 10 فروری کو قندوز میں ایک جھڑپ میں گیارہ اہل کار ہلاک ہوئے۔ اسی روز میڈیا نے خبر شائع کی کہ نیمروز میں جھڑپ کے دوران 16 فوجی ہلاک ہوئے۔ 15 فروری کو صوبہ زابل میں 13 پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔
19 فروری کو صوبہ دایکندی میں مجاہدین کے حملے میں 20 مقامی پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے ، 23 فروری کو صوبہ لوگر کے دارالحکومت میں 9 پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔ 24 فروری کو صوبہ کاپیسا میں مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں دشمن کے متعدد اہل کار ہلاک اور زخمی ہوئے۔
تنقید:
7 فروری کو کابل – قندھار قومی شاہراہ پر ڈرائیوروں نے پولیس اہل کاروں کے ظلم اور بھتہ لینے کے خلاف احتجاج کیا اور بائیکاٹ کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ کابل انتظامیہ کی تمام چیک پوسٹوں کے اہل کار ان سے بھتہ لیتے ہیں اور انہیں ہراساں کرتے ہیں، ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ ہرات میں طالبان کی کسٹم کلیئرنس پکتیا اور پکتیکا کی سرحدوں پر تعینات طالبان قبول کرتے ہیں لیکن کابل انتظامیہ کی کسٹم اور اس کے اہل کار جگہ جگہ بھتہ لیتے ہیں۔
تکلیف دہ واقعہ:
7 فروری کو میڈیا نے خبر شائع کی کہ صوبہ ہرات میں غربت کی وجہ سے خواتین سمیت سیکڑوں افراد اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، حالانکہ ان غریب لوگوں کے نام پر جو امدادی رقم باہر سے آئی تھی وہ کرپشن کی نذر ہوگئی اور ملک سے باہر منتقل کر دی گئی۔ یکم فروری کو نام نہاد پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی دعوی کیا کہ اشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی کابل ائیرپورٹ کے راستہ بھاری رقوم ملک سے باہر منتقل کررہی ہیں۔
قابض افواج کا انخلا:
17 فروری کو امارت اسلامیہ نے نیوزی لینڈ کے اس اعلان کیا خیر مقدم کیا کہ مئی تک افغانستان سے اپنی بقیہ فوجیں واپس بلائے گا۔ اور دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ نیوزی لینڈ کے نقش قدم پر چل کر فوجی انخلا کے لئے اقدامات کریں۔ 18 فروری کو نیٹو کے کے خصوصی اجلاس میں افغانستان سے فوجی انخلا کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ کرنا تھا، تاہم اس اجلاس میں یہ فیصلہ نہیں ہوا، 25 فروری کو جرمنی نے اعلان کیا کہ افغانستان میں اس کی افواج مزید دس ماہ تعینات رہیں گی۔