افغانستان میں جارحیت پسند بوکھلاہٹ کا شکار

کل  امریکا کے   اعلیٰ فوجی عہدیدار چئیر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کابل  کے دورے پر آئے  اور اپنے  دونوں کٹھ پتلی حکمرانوں   اشرف  غنی اور  عبداللہ  سے ملاقات کی ۔ ملاقات  میں سیکیورٹی  امور پر  تبادلہ خیال کے  ساتھ  افغانستان کے  سیکیورٹی فورسز کی   تعریف  بھی کی  گئی اور   کہا کہ […]

کل  امریکا کے   اعلیٰ فوجی عہدیدار چئیر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کابل  کے دورے پر آئے  اور اپنے  دونوں کٹھ پتلی حکمرانوں   اشرف  غنی اور  عبداللہ  سے ملاقات کی ۔ ملاقات  میں سیکیورٹی  امور پر  تبادلہ خیال کے  ساتھ  افغانستان کے  سیکیورٹی فورسز کی   تعریف  بھی کی  گئی اور   کہا کہ افغان فوج اب اس خطے کی  ایک بہتر فوج ہے۔

کچھ  دن  قبل  امریکا کے   سیکرٹری دفاع ایش کارٹر بھی  اچانک دورے پر کابل  پہنچ  گئے۔انہوں نے اپنے فوجیوں کا حوصلہ  بلند  رکھنے  کیلئے   زمینی  حقائق کے خلاف  خطاب کیا اور جنرل  نکولسن کو   مجاہدین کے خلاف آپریشن کیلئے مزید اختیارات  دئیے۔

نہایت ہی مختصر مدت میں امریکا کے  سیکرٹری دفاع اور  چیف آف سٹاف کی  افغانستان آمد سے  یہ  ثابت ہوتا ہے کہ  جارحیت پسند ممالک کیلئے  مجاہدین کی  کاروائیاں  درد سر   بنی  ہوئی ہیں اور   انہیں یہاں شکست کا سامنا ہے۔ کیونکہ   امریکا  اور اس کے  حواریوں نے  گذشتہ ڈیڑھ  عشرے سے  افغان قوم پر ہر قسم کے ظلم  و ستم کے  حربے  آزمائے  لیکن وہ  اپنے خلاف جہاد  کی صدا  کو خاموش  تو در کنار  کمزور  بھی نہ کر سکے۔

گذشتہ  سال  امارت اسلامی کے موسس  امیر الموّمنین ملامحمد عمر مجاہد رحمہ  اللہ  کے وفات کے  اعلان سے  تو گویا دشمن کو   ایک موقع ہاتھ آیا اور ان کا خیال تھا کہ  اب  ان کی  قسمت جاگ اٹھی ہے  اور اب وہ  مجاہدین کو کمزور  اور ان کے درمیان اختلافات اور پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن  امارت  اسلامی کے  نئے زعیم شہید  ملا اختر محمد منصور تقبلہ  اللہ  نے   نہ صرف امارت اسلامی کے صف کو  اختلافات کے  بحران سے  بچایا  بلکہ  ماضی کی  نسبت  اس صف کو مزید  تقویت بخشی اور  سیاسی اور  عسکری میدان میں امارت اسلامی کو ناقابل یقین  حد  تک  ترقی کے منازل  طے کرائے۔

اسی طرح رواں سال  مئی میں   امیرلمومنین ملا اختر محمد منصور  صاحب کی  شہادت  سے دشمن  کی  امیدیں  ایک بار پھر بر آنے لگی  کہ  اب مجاہدین   کو منتشر  ہونے  سے کوئی نہیں روک سکتا اور   اس طرح  وہ مجاہدین کےخلاف آسانی سے  فتح حاصل کرلیں  گے۔ لیکن  الحمد للہ   امارت اسلامی کی  رہبری شوریٰ کی جانب سے  نئے  زعیم کے انتخاب کے ساتھ  ہی جہادی صف کو  بنیان مرصوص کی طرح مضبوط اور   قائم  رکھا۔ یہاں  تک  کہ  دشمن کے زہریلے پروپیگنڈے  اور مسلسل  حملوں کے باوجود مجاہدین   عسکری اور سیاسی  میدان میں ایک  انچ  بھی  پیچھے نہیں ہٹے۔

ملا اختر محمد منصور تقبلہ اللہ  کی شہادت  کے  بعد تین دن  کی  سوچ بچار کے  بعد امارت اسلامی کے  رہبری شوریٰ نے  شیخ الحدیث والتفسیر مولوی  ہیبت  اللہ خنذادہ  صاحب کو  امارت اسلامی کے نئے زعیم کے  طور پر منتخب  کیا گیا۔اس کے ساتھ  ہی ملک  کے  طول  و عرض سے  مجاہدین،علاقائی معتبرین،علماء اور  افغانستان کے غیور عوام نے  بیعتوں کے سلسلے  کا آغاز کیا۔جس سے  ایک مرتبہ پھر دشمن کے  عزائم خاک میں مل  گئے۔

امارت اسلامی کے مجاہدین نے   امیرلموّمنین مولوی  ہیبت اللہ اخونذادہ  صاحب کی قیادت میں ملک  کے  طو ل  وعرض میں جارحیت پسندوں  اور  ان کے کاسہ لیسوں  کے مراکز، حفاظتی   چوکیوں اور فوجی  قافلوں پر ایسے  تباہ کن  حملے کئے کہ  دشمن  کو  دن میں تارے  نظر  آنے  لگے۔

ملک کے مختلف  علاقوں میں اب  امارت اسلامی  کا امن و سلامتی  والا سفید پرچم  لہرا رہا ہے۔ بہت سے  وسیع علاقوں ،مختلف اضلاع اور کچھ صوبوں کے صرف مراکز کے  علاوہ  نواحی علاقے سارے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں۔متعدد اضلاع اور صوبوں کے مراکز   محاصرے میں ہیں اور  ان کا دسرے شہروں  اور صوبو ں سے  رابطہ  منقطع ہو گیا ہے مزید کاروائی   کو  امیرالموّمنین کے حکم   تک معطل  کیا گیا ہے اور  جیسے ہی  ہمیں زعامت کی  طرف سے  حکم  ہوگا فوراً  مجاہدین  اللہ  تبارک وتعالیٰ کی نصرت  اور غیور عوام کی حمایت سے  محصور دشمن  کے مراکز  پر فیصلہ کن  حملوں کا آغاز کریں گے۔

دشمن  جان لے کہ امارت اسلامی  وہ عوامی قوت ہے جسے  جارحیت پسند اور ان کے غلا م  ان پر  غلبہ  حاصل  نہیں کر سکتے۔ دشمن کو چاہئے  اپنے  گذشتہ  پندرہ سالہ  کاروائیوں پر  نظر ڈالیں کہ اس  سے  انہیں کیا ملا۔ کیا بے شمار  جانی  اور مالی نقصانات  کے  باوجود    وہ مجاہدین کی قوت کو کمزور کر سکے،یقیناً جواب  نفی میں ہے۔ اس لئے ان کیلئے   افغانستان کےطویل جنگ میں  شرکت کو  حماقت  نہیں تو کیا ہے۔

دشمن  مجاہدین کی   پے درپے کامیابیوں کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے ہر دن  اپنے  فیصلوں  اور  بیانات  سے  اپنے شکست کو  چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک   طر ف ایسے  فیصلے کرتے  ہیں جو  بالکل  حالات سے مطابقت  نہیں  رکھتے اور دوسری جانب وہ فیصلے  صر ف میڈیا کے بیانات تک ہی  محدود  رہتے ہیں۔ دشمن کی بوکھلاہٹ کی  ایک  اور  مثال امریکی فوجی  عہیدیداروں  کے  اچانک دورے ہیں جو وہ  اپنے  شکست خوردہ  افواج کے  حوصلے بلند رکھنےکیلئے  کبھی کبھار کرتے رہتے ہیں۔