افغانستان میں جنگ کے مرتکب افراد کون ہیں ؟

تقریبا سولہ سال بیت چکے ہیں کہ امریکی قیادت میں جارحیت اور ان کے فرمانبردار ملکی حامیوں نے افغانستان میں جنگ کی آگ کو  جلا رکھی ہے  اور افغان عوام  ماتم  میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔  تمام تسلیم شدہ عالمی قوانین کے خلاف افغانوں سے ان کی آزادی  اور  اپنے اسلامی عقیدے کے مطابق اسلامی […]

تقریبا سولہ سال بیت چکے ہیں کہ امریکی قیادت میں جارحیت اور ان کے فرمانبردار ملکی حامیوں نے افغانستان میں جنگ کی آگ کو  جلا رکھی ہے  اور افغان عوام  ماتم  میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔  تمام تسلیم شدہ عالمی قوانین کے خلاف افغانوں سے ان کی آزادی  اور  اپنے اسلامی عقیدے کے مطابق اسلامی نظام کے نفاذ کا حق  جو دنیا بھر میں عوام کا بنیادی حق ہے،ان سے سلب کیا جاچکا ہے، مگر اس کے باوجود استعمار اور اس کے حواری الزام لگاتے ہیں کہ امارت اسلامیہ جنگ پر اصرار کررہی ہے اور مسئلے کا پرامن حل نہیں چاہتی ۔  استعمار اس طرح کوشش کرتی ہے کہ امارت اسلامیہ کو  جنگ اور موجودہ بحران کا ذمہ دار ٹہرا دے۔جنگ امارت اسلامیہ کا انتخاب نہیں بلکہ ہماری مجبوری ہے،  یہ اس لیے کہ ہم سے ہمارا جائز حق چھینا گیا ہے، جس  سے امارت اسلامیہ کے مجاہدین  میدان جنگ اور مذاکرتی میز پر دفاع کررہا ہے۔

امارت اسلامیہ کے موجودہ قائد عالی قدر امیرالمؤمنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ نے امارت اسلامیہ کے سابق رہنماؤں کی طرح  عید کے پیغام میں واضح الفاظ میں افغان مسئلہ کا پرامن حل تجویز کیا اور  سیاسی دفتر کو  رابطے کے  واضح مرجع کے طور پر مسئلہ کے پرامن حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپ دی  ۔ مگر بدقسمتی سے  استعمار اور اس کے حمایتی افغان مسئلے کا حل فوجیوں کی تعداد بڑھانے، بمباری اور  رات کے چھاپوں میں چاہتا اور دیکھ رہا ہے۔ لیکن اگر اس سے مسئلہ حل ہوتا، تو گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں حل ہوجاتا۔ اسی طرح افغان مسئلے کا حل امریکی جنرلوں کے مزاجی جائزوں میں بھی نہیں ہے، کیونکہ انہیں اپنے امتیازات جنگ میں نظر آرہے ہیں اور نہ ہی افغان مسئلے کا حل ملک سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر آرام دہ ماحول میں رہائش پذیر معتصب تجزیہ نگاروں کے تجزیوں میں ہے، جو افغانستان کے زمینی حقائق سے بےخبر ہیں  اور مسئلے کے حل کے بجائے ظلم اور جارحیت کے دوام کے لیے دلائل تراشتے ہیں۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ استعمار  اپنے منصوعی غرور سے  اتر جائیں اور افغان عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں۔

اگر امارت اسلامیہ  پرامن طریقے سے اپنے جائز حقوق حاصل کریں، ایک لمحے کے لیے بھی جنگ جاری رکھنے کی طلب گار  ہے اور نہ ہی دیگر ممالک میں مداخلت کی ایجنڈا رکھتی ہے، بلکہ جب بھی امارت اسلامیہ نے جنگ سے فرصت حاصل کی، عوام کی خوشحالی کےلیے کمربستہ ہوگی۔ اس وقت امارت اسلامیہ کے زیرکنٹرول علاقوں میں تعمیراتی کام جاری ہیں  اور ہزاروں طلبہ عصری و دینی علوم کے حصول میں مصروف ہیں۔ ملک میں قومی منصوبوں کی موجودگی اور دوام امارت اسلامیہ کی وفاداری کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ استعمار نہیں کہہ سکتا کہ امارت اسلامیہ صرف جنگ چاہتی اور لڑرہی ہے۔

امریکہ اور اس کے ساتھیوں کو سمجھنا چاہیے کہ امارت اسلامیہ کی زیر قیادت  انہیں عوامی نفرت کا سامنا ہے اور وہ  ایک مزاحمتی گروپ سے روبرو نہیں ہے۔ اگر استعمار حقیقی طور پر افغان مسئلے کا حل چاہتا ہے، تو انہیں افغان مجاہد عوام کے جائز حقوق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ امن کی راہ میں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے سوچ لے اور مزید رکاوٹوں کو پیدا کرنے سے اجتناب کریں ۔  خطے کی طویل استعماری اہداف کے لیے افغان عوام کو مزید قربان  اور نہ ہی ہماری خودمختاری اور امن کو  تباہ کریں ۔