افغانستان کی مستحکم ہوتی معیشت، پڑوسی ممالک کے لیے صلائے خیر

افغانستان کی مستحکم ہوتی معیشت، پڑوسی ممالک کے لیے صلائے خیر تحریر: اکرم تاشفین برلن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے شفاف اور کرپشن سے پاک ممالک کی درجہ بندی کی فہرست میں افغانستان کو 150ویں نمبر پر رکھا ہے۔ کم و بیش ایک دہائی سے افغانستان کا شمار دنیا کی سب سے […]

افغانستان کی مستحکم ہوتی معیشت، پڑوسی ممالک کے لیے صلائے خیر
تحریر: اکرم تاشفین
برلن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے شفاف اور کرپشن سے پاک ممالک کی درجہ بندی کی فہرست میں افغانستان کو 150ویں نمبر پر رکھا ہے۔ کم و بیش ایک دہائی سے افغانستان کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ 10 کرپٹ حکومتوں میں ہوتا تھا۔ لیکن رواں برس افغانستان میں کرپشن کی کمی کے باعث وہ 10 کی اس فہرست سے نکل آیا ہے۔
برلن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے منگل کو کرپشن سے متعلق عمومی تاثر کی درجہ بندی یا کرپشن پرسیپشن انڈیکس کی تفصیلات جاری کی ہیں۔اس درجہ بندی میں ڈنمارک کو سب سے کم کرپشن کے ساتھ پہلے نمبر پر جب کے صومالیہ کو 180 ویں درجے کے ساتھ دنیا کا سب سے کرپٹ ملک قرار دیا گیا ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے زیرِ اقتدار افغانستان اس درجہ بندی میں 150 ویں نمبر ہے جب کہ 2021 میں یہ 174 ویں نمبر پر تھا۔سن 2011 میں جب امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود تھی اور وہاں امریکہ ترقیاتی کاموں میں معاونت بھی فراہم کررہا تھا تو اس دور میں افغانستان شمالی کوریا اور صومالیہ کے ساتھ 180 ویں درجے پر بدعنوان ترین ملک قرار پایا تھا۔
اس کے علاوہ عالمی بینک نے افغانستان کی معاشی صورت حال پر اپنی رپورٹ میں اس کی بہتر معیشت کا اعتراف کیا تھا۔ عالمی بینک نے 25 جنوری کو شائع ہونے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران افغانستان کی برآمدات میں اضافہ سے لے کر اشیاء کی قیمتوں میں کنٹرول ، افغان کرنسی کی قدر برقرار رکھنے اور محصولات جمع کرنے تک مختلف حصوں میں بہتری دیکھی گئی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان نے جنوری 2022 سے نومبر تک 1.7 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ کسٹمز سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سبزیوں کی مصنوعات افغانستان کی برآمدات کا سب سے بڑا (56 فیصد) حصہ ہیں۔ معدنیات اور ٹیکسٹائل کو بھی ملک کی دوسری بڑی برآمدات میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے 65 فیصد سامان پاکستان اور 20 فیصد بھارت کو برآمد کیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں ممالک افغانستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیاں ہیں۔ واضح رہے کہ 2020 اور 2021 میں افغانستان کی تمام برآمدات کی مالیت 800 اور 900 ملین ڈالر تھی۔
افغانستان پر عائد پابندیوں اور عالمی تنہائی کے باوجود دو عالمی اداروں کا امارت اسلامیہ کے دور میں معاشی بہتری اور حکومتی نظام میں ’’نسبتا‘‘ شفافیت کا اعتراف امارت اسلامیہ کی اپنی سرزمین اور قوم سے محبت اور خدمت کا بین ثبوت ہے۔ ہر طرح کی پابندیوں کے باجود افغان حکومت کے بلا کسی سے قرض لیے اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات اس کی قیادت کی اہلیت اور ان کے عزائم کی بلندی کے گواہ ہیں۔
افغانستان اپنے محل وقوع کی اہمیت کے باعث ہی عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے، جس کی وجہ سےیہ 44 سال جنگوں میں گرا رہا۔ امارت اسلامیہ نے اپنے دوبارہ قیام کے بعد اس کی اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر اسے دنیا کے لیے تجارتی حب بنانے کی پیش کی ہے۔ امارت اسلامیہ کی خارجہ پارلیسی ایک ہی نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ دنیا بھرسے برابری کی سطح پر افغانستان کے معاشی مفاد ات کی روشنی میں تعلقات۔ امارت اسلامیہ کے تمام تر بیرونی تعلقات کا محور یہی ایک نکتہ ہے۔ امارت اسلامیہ پوری دنیا کو دعوت دیتی ہے کہ جنگوں کے ذریعے اپنے معاشی مفادات کے حصول کی بجائے تجارتی طریقے سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہوئی اپنے معاشی فوائد حاصل کریں۔ افغان وزیرخارجہ مولوی امیر خان متقی اپنی گفتگو میں کئی فورمز پر کہہ چکے ہیں کہ ہم جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملائیں گے۔ روس کو جنوبی ایشیا کے گرم پانیوں تک راستہ دیں گے۔ چین کو ایران اور وسطی ایشیا تک راہداری دیں گے۔ دنیا اپنا تجارتی مال لے کر آئے راستہ ہم دیں گے ، یہ افغانستان اور افغان عوام کی معشیت کے لیے بھی بہتر ہوگا اور دنیا کے لیے بھی۔
اس وقت افغانستان میں چین کے ساتھ تیل اور معدینیات کے اخراج کے کئی معاہدے ہوچکے ہیں۔ ترکی کی کمپنیاں تعمیرات کے شعبے میں معیاری کام کررہی ہیں۔ ازبکستان اور قازقستان کا کردار ریلوے کے شعبے میں فعال ہے۔ ایرانی صدر نے اپنے نمائندہ خصوصی کو افغانستان میں سفیر بھی متعین کردیا ہے جس کی وزارت خارجہ میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور ایران معاشی حوالے سے اپنی پالیسیوں پر کام کررہا ہے۔
ایسے حالات میں جب افغانستان میں مکمل امن و امان قائم ہے جس کا فائدہ اٹھاکر پڑوسی ممالک افغانستان سے اپنا معاشی لین دین بڑھا رہے ہیں پاکستان کو بھی ایک پڑوسی ملک اور افغان مہاجرین کے میزبان کی حیثیت سے دوسروں سے بڑھ کر اپنے معاشی تعلقات میں تیزی لانی چاہیے۔ دنیا کے ہر دو پڑوسی ممالک کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر کچھ مسائل ہوتے ہیں، ان مسائل کا حل مذاکرات اور افہام وتفہیم کے بعد طے شدہ طریقہ کار پر صادقانہ عمل درآمد سے ممکن ہوتا ہے۔ جنگوں کی تباہی اور اس کے برے اثرات کا تجربہ افغانوں سے زیادہ کس کو ہوا ہوگا۔ افغانستان کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی سے اس کی تلخی بڑھے، کسی سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوں، پاکستان اگر امارت اسلامیہ افغانستان سے معاشی تعلقات کو فروغ دے تو بیچ کے کئی مسائل تو خود بخود ختم ہوجائیں گے۔