کابل

افغانستان ہمہ جہت ترقی کی راہ پر گامزن

افغانستان ہمہ جہت ترقی کی راہ پر گامزن

تحریر: ڈاکٹر یاسین اقطائی

نوٹ: ڈاکٹر یاسین اقطائی ترکی ہے۔ گذشتہ ماہ انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، اپنے دورے کے بعد انہوں نے افغانستان کی ترقیاتی سفر کے حوالے سے الجزیرہ میں ایک مضمون لکھا۔ جس کا ترجمہ الامارہ اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

گذشتہ ماہ افغانستان کے دورے کے بعد مجھے اپنے مضامین کی ایک سیریز پر منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت ان مضامین میں میں نے ایک چشم دید گواہ کے طور پر قابل رسائی ذرائع کی بنیاد پر افغانستان میں ترقیاتی سفر اور اس سے جڑے واقعات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ رد عمل پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ قارئین کی الجھن طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کے بارے میں غلط تاثر اور تصویر کا نتیجہ ہے۔ کیوں کہ رد عمل دینے والوں میں سے کچھ کا خیال ہے کہ طالبان کی حیثیت محض ایک مسلح گروہ کی ہے۔ ان کے پاس تعلیمی مہارت، وژن، اخلاق اور حکومتی انتظام سنبھالنے کی کوئی مہارت نہیں ہے۔ رد عمل دینے والوں کی غلط فہمی لفظ “طالبان” ہے۔ طالبان جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے ان کا پیشہ تعلیم و تعلم ہی ہے۔ “طالبان” پشتو کا لفظ ہے جو طالب کی جمع ہے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کے اقدامات نے لفظ “طالبان” کا وہ مطلب بھلا ہی دیا جو سمجھا جا رہا تھا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بیس سال تک افغانستان میں جنگ لڑی، یہ توقع نہیں تھی کہ انھیں افغانستان میں کوئی اہم چیز ملے گی، اس کی ایک وجہ تو امریکہ کے خلاف 20 سال کی  جنگ تھی دوسری وجہ افغانستان کی باقی دنیا سے بالکل مختلف طرز زندگی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد امارت اسلامیہ نے سب سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا، اسی اعلان کے ذریعے طویل خوں ریز جنگوں کے بعد ملک میں امن و استحکام لایا۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ افغان معاشرہ ایک روایتی معاشرہ ہے، جہاں انتقام کی روایت پر سختی سے عمل کیا جاتا  ہے۔ ایسے معاشرے میں حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان کوئی آسان اقدام نہیں ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کتنا مشکل ہے یہ الگ بات ہے اور حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان موجودہ رسوم و روایات سے متصادم ہے، یوں اس طرح کے رسم و رواج کا مقابلہ کرنا ناممکن نظر آتا تھا، کیوں کہ ایک طرف حکومت عام معافی کا اعلان کرے گی، دوسری طرف لوگ اپنی روایات کے مطابق انتقام کا راستہ اختیار کریں گے جس سے تشدد اور جنگ کا ایک اور سلسلہ جاری رہے گا، مگر طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ اخندزادہ نے فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کا اثر تمام روایات سے زیادہ تھا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے مذکورہ فیصلے کا اثر بھی ان تمام افغانی روایات اور رسومات سے بالا تر ثابت ہوا۔ وہ روایات جو اسلام سے متصادم تھے۔ افغان معاشرے میں خواتین کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے۔ ایسی روایات افغان معاشرے میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ لیکن فی الحال ایسی تمام روایات امارت اسلامیہ افغانستان کے قوانین کے تابع ہیں جن سے لوگوں کو بالعموم اور خواتین کو خاص طور پر فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مگر یہ تفصیلات وہ لوگ نہیں دیکھ رہیں جو خواتین کی تعلیم کے معاملے پر فکرمند ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگ اس تصویر کو فالو کرتے ہیں جو مغربی میڈیا کی طرف سے شائع ہوتی اور دکھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی تعلیم سے متعلق صورت حال وہ نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یونی ورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا نظام بنانے کے لیے سنجیدہ نوعیت کی تیاریاں جاری ہیں۔ 45 سالوں میں پہلی بار افغانستان پورے ملک میں استحکام اور امن دیکھ رہا ہے۔ اس استحکام کا ایک اہم نتیجہ ملک میں تعمیر و ترقی کے عمل کا آغاز ہے۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر یہاں ترقی کی خبریں دیکھ رہے ہیں،  یہ سب ایک مستحکم مرکزی حکومت کی موجودگی میں ہی ممکن ہے۔ میں نے گذشتہ مضامین میں اس بات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ افغانستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کا انتظار کر رہا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعض غیر ملکی سرمایہ کار افغان حکومت کی سرکاری شناخت (تسلیم) کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پروٹوکول کے ابہام کی وجہ سے تاحال تذبذب کا شکار ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری کے عمل کو وسعت دی ہے۔ افغانستان میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کے نتائج میں سے ایک حکومتی بجٹ کا تعمیری اور موثر استعمال ہے۔ حال ہی میں افغانستان اپنی تاریخ میں پہلی بار بجلی کے شعبے میں اپنے پڑوسی ممالک کے تمام قرضے ادا کرنے میں کامیاب ہوا۔ مثبت پیش رفت کے تسلسل میں دریائے آمو آئل فیلڈ میں تیل کے 6 نئے کنویں کھودے گئے۔ جس کے مطابق تیل کی یومیہ پیداوار 1350 ٹن تک بڑھ گئی اور اس وقت تیل کے 24 نئے کنووں سے تیل نکالنے پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے علاقوں میں بھی تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اس پیش رفت کی وجہ سے افغانستان تیل پیدا کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا، افغانستان میں معاشی حوالے سے انسانی وسائل کو سب سے اہم قوتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے افغانستان میں ایسی سرمایہ کاری کرنے کی تجویز پیش کی جس کے لیے بڑی انسانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ ٹیکسٹائل، زراعت، لائیوسٹاک وغیرہ۔
دریائے آمو کے ساتھ ایک بڑے کینال پر جس تیز رفتاری سے کام جاری ہے یہ اس بات کی علامت  ہے کہ افغانستان مستقبل قریب میں توقعات کے برعکس، تیز رفتار پیش رفت کا مشاہدہ کرے گا۔ قوش تیپہ کینال کی تعمیر تمام افغانوں کی بالعموم، شمال کے لوگوں کی بالخصوص بہت بڑی خواہش تھی۔ امن و استحکام کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کا خواب بھی جلد ہی پورا ہونے والا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے افغانستان کے شمال میں خشک ریگستان سرسبز زرعی زمینوں اور ترقی یافتہ صنعتی علاقوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ قوش تیپہ کینال ایک سیکنڈ میں دریائے آمو سے 650 کیوبک میٹر پانی بلخ، جوزجان اور فاریاب صوبوں کو منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس سے 3 لاکھ ہیکٹر ریگستان زرخیز زرعی زمینوں میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس نہر کی چوڑائی 100 میٹر، گہرائی 8.5 میٹر اور پانی کی اونچائی 6.5 میٹر ہے۔ یہ نہر صوبہ بلخ کے ضلع کلدار میں دریائے آمو سے شروع ہوکر ضلع کلدار کے صحراؤں سے گزرتے ہوئے مزار شریف اور حیرتان سے گزرتی ہے۔ توقع ہے کہ اس منصوبے کا اگلا مرحلہ اگلے چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ افغانستان کے لیے اس منصوبے کی حیثیت جنوب مشرقی اناطولیہ (GAP) کی طرح ہے۔ قوش تیپہ کینال منصوبہ سے افغانستان کے پڑوسی ممالک کو بھی مسئلہ ہے۔ اس منصوبے سے پڑوسی ممالک میں پانی کی سطح کم ہوجائے گی۔ لیکن افغانستان کے مستحکم حکومت کے لیے اس منصوبے سے افغانستان کی اندرونی ضرورتوں کی تکمیل ایک چیلنج ہے۔
درحقیقت محدود وقت میں ترقی کا یہ سفر ظاہر کرتا ہے کہ ایشیا کے قلب میں واقع تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے قدیم ملک کی ترقی میں تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟ جو انسانی وسائل، وافر پانی اور تزویراتی محل وقوع کے لحاظ سے مضبوط صلاحیت کا حامل ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پچھلے 40 سالوں کے دوران افغانستان میں مغرب اور اس کے اتحادیوں نے تقریباً 40 لاکھ منشیات کے عادی افراد کے علاوہ ملک کے لیے کوئی مفید سرمایہ کاری نہیں کی۔ اب جب کہ وہاں طالبان کی حکومت ہے افغانستان ہمہ گیر ترقی کر رہا ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ افغانستان کے حوالے سے ترقی کی خبریں ان لوگوں کے لیے اچھی ثابت ہوں گی یا بری، جو افغان مہاجرین کے حوالے سے طنزیہ گفتگو کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ چوں کہ افغانستان میں حالات درست نہیں اس لیے افغان باشندے ہجرت پر مجبور ہیں۔
افغانستان میں داخلی استحکام اور معاشی ترقی سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانوں کی ہجرت کا سلسلہ مزید رک جائے گا اور افغانوں کی واپسی کا سلسلہ مزید تیز ہوجائے گا۔