کابل

 افغان وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان، بہترتعلقات کے لۓ مثبت کردار کی ضرورت ہے

 افغان وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان، بہترتعلقات کے لۓ مثبت کردار کی ضرورت ہے

افغان وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان، بہترتعلقات کے لۓ مثبت کردار کی ضرورت ہے

ماہنامہ شریعت کا اداریہ

افغان وزیرخارجہ مولوی امیرخان متقی اعلی سطحی وفد کی قیادت کرتے ہوۓ 5 مئ کو پاکستان کے دورے پر آۓ ہوۓ تھے- حالیہ دورہ خاص اہمیت کا حامل تھا جس میں امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیرخارجہ نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک اہم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے متعلق خیر سگالی، دوستی اور باہمی اخوت کے جن جزبات واحساسات کا اظہار کیا ہے وہ بلا شبہ دو ہمسائے اوردوست ممالک کے درمیان پائے جانے والے بہترتعلقات کی نشان دہی ہے – مولوی امیرخان متقی نے واضح الفاظ میں کہا کہ افغان حکومت پاکستان میں تشدد، بدامنی اور خانہ جنگی نہیں چاہتی، دونوں ممالک کے درمیان کئ مشترکات ہیں اور دونوں کومتعدد ایک جیسے چیلنجوں کا سامناہے جنھیں دونوں ملکوں کی حکومتیں مل جل کر ہی ختم کرسکتی ہیں- افغان وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم ہر سطح پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرناچاہتے ہیں – جس میں سنٹرل ایشیاء سے ریلوے لاین، بجلی اور گیس پایپ لائن کی تعمیر بھی شامل ہے – انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہيں کرنے دیاجائیگا- مولوی امیرخان متقی نے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کی بہتری پر زور دیتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ افغانستان معدنی ذخائر سے مالامال ملک ہے اور پاکستان اور افغانستان مل کر خوشحالی، ترقی اور امن وسلامتی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔

اس سفر کے دوران پاک افغان وزراۓ خارجہ کے درمیان اجلاس بھی اہم تھا جسمیں امن وامان، دوطرفہ تجارت اورٹرانزٹ کے لیۓ تعاون بڑھانے،علاقائی اور اقتصادی روابط کے فروغ کے لیۓ تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق کیا گیا-

دریں ا‍‌ثنا وزیرخارجہ امیرخان متقی کی قیادت میں افغانستان کے اعلی سطحی وفد نے پاکستان کی اعلی سیاسی وعسکری قیادت کے علاوہ یہاں کی سرکردہ دینی وسیاسی شخصیات، علما‏ء کرام، قبائلی مشران اور تاجر رہنما‍‌ؤں سےبھی ملاقاتیں کیں اور انہیں افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لئے امارت اسلامیہ افغانستان کے اقدامات، پالیسیوں اور کامیابیوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ افغانستان کے طول وعرض میں امارت اسلامیہ کی مکمل عملداری قائم ہوچکی ہے اور افغان عوام امن کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں-

وزیرخارجہ مولوی امیرخان متقی کی جانب سے پاکستان کی سلامتی، امن اور استحکام کے حوالے سے خیرخواہی اور نیک جذبات کا اظہار در اصل افغان قیادت کے اس موقف کی وضاحت ہے کہ وہ ہمسائے یا دیگرملک مخالف گروہوں کی پشت پناہی نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کسی ملک کے خلاف عزائم رکہتے ہیں –

بلاشبہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان متعدد حل طلب مسائل موجود ہیں- دونوں حکومتوں میں سے ایک بھی اپنے داخلی استحکام کے لیے کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہے گی لیکن ان مسائل کے حل کے لئے جانبین سے سنجیدگی کا مظاہرہ ضروری ہے- دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خوشگوار، مستحکم اور پائیدار بنانے کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتوں کوہی کردار ادا کرنا ہوگا- ہم انسانی تاریخ کے ان لمحات میں زندگی گزار رہے ہیں کہ ایک ملک کے حالات سے اس کے آس پڑوس کے ممالک لا تعلق نہیں رہ سکتے- اور خاص کر افغانستان اور پاکستان کے لیے ایک دوسرے سے لا تعلق رہنا توممکن ہی نہیں ہے- افغانستان اورپاکستان دو ملک اور لاین کی دونوں جانب ایک قوم ہیں- دونوں ممالک کا صرف امن ہی ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ قوم، زبان،کلچر، مذہب اور تجارت ومعیشت تک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے- بھوک ہو یا تونگری اس کا اثر دونوں جانب یکساں دکھائی دیتا ہے – جب ایک جگہ امن کی پھلواری مہکتی ہو تو خوشبو سے دوسرا بھی مستفید ہوتاہے اور جب بد امنی کی آگ سلگتی ہے تو تپش دونوں جانب محسوس کی جاتی ہے – تودونوں ملکوں کے درمیان خوش گوار، گرم جوش اور باہمی اخوت میں گندھے ہوۓ تعلقات کا ہونا انتہائی ضروری ہیں جس کا شاید اب آغاز ہوچکا ہے-

دوطرفہ ملاقاتوں کے علاوہ افغان وزیرخارجہ نے چین، پاکستان، افغانستان، سہ فریقی وزراۓ خارجہ اجلاس میں بھی شرکت کی جہاں تینوں فریقوں نے سیاسی رابطوں، بد امنی کے خلاف تعاون سمیت سہ فریقی فریم ورک کے تحت تجارت سرمایہ کاری اور رابطہ کاری کے تعاون کوبڑھانے پر اتفاق کیا، افغانستان کی امداد اور 9 ارب 50 کروڑ ڈالر کے اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا- اس ضمن میں چین اور پاکستان نے یکساں موقف کا اظہار کیا یعنی یہ کہ خوشحال اور مستحکم افغانستان اس خطے میں امن کا ضامن ثابت ہوگا- چین کے وزیرخارجہ نے افغانستان کے وزیرخارجہ کو یقین دلایا کہ ان کا ملک ہر سطح پر افغانستان کی مدد کرتا رہے گا تا کہ افغان عوام کی سماجی حالات کو بہتر بنایاجاسکے- اسی ہی قسم کے خیالات کا اظہارپاکستان وزیرخارجہ بلاول زرداری نے بھی کیا-

اس سہ فریقی وزراۓ خارجہ اجلاس میں سی پیک بھی زیربحث آیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلد ہی افغانستان کو بھی سی پیک کا حصہ بنالیا جاۓ گا- اگرعملا ایسا ہوتاہے تو اس سے چین کے ون بیلٹ اینڈ روڈ کو بڑی تقویت ملنے کے ساتھ ساتھ افغانستان اورپاکستان کو بھی اقتصادی ترقی کے بڑے مواقع ہاتھ آینگے –

گو کہ چین، افغانستان اورپاکستان کے وزراۓ خارجہ سطح کی بات چیت اور مذاکرات کا لب لباب تجارتی تعلقات اور معاشی مواقع میں اضافہ اور جغرافیائی بنیادوں پر مشترکہ اقتصادی ترقی ہی رہا اور اس ضمن میں یقینا نہایت مثبت پیش رفت کی توقع روشن ہے تاہم ان تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے سنجیدگی، صداقت اور انفرادی مفاد کی بجای مشترکہ مفادات کو مقدم رکھنے کی اشد ضرورت ہے اور افغانستان،پاکستان اور چین درست فیصلوں کے ذریعے سے اس ضرورت کی تکمیل کرسکتے ہیں ۔

معاملات کی اہمیت کے پیش نظر تینوں حکومتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات، بات چیت اور مکالمے میں صبروتحمل،ایک دوسرے کا احترام، خوش اسلوبی، مقصد کے حوالے سے سچائی اختیار کرنا، دوسرے کا موقف غوروفکر کے ساتھ سننا،مشترکہ مفادات کے حوالے سے رویے میں لچک رکھنا انتہائی اہم عناصر ہیں – اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے تینوں طرف سے تجربہ کار، باصلاحیت اورمشترکہ مفادات ومقاصد کے حوالے سے بصیرت رکھنے والے افراد کی مذاکرات میں شمولیت بھت ضروری ہے ۔

ایک ایسے ماحول میں  کہ چین اور افغانستان کے وزراۓ خارجہ پاکستان میں مشترکہ اجلاس میں شریک ہورہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے ذریعہ چین تا وسطی ایشیا اور یورپ زمینی راستے قائم کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ تینوں ممالک میں سیاسی صورتحال ہموار رہے؛ فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدگی ہو، سیاسی حکومتوں کے علاوہ ریاست کی کوئی بھی طاقت بے جا مداخلت سے اجتناب کرے اور تینوں میں سے کوئی ملک بھی  کسی  بیرونی ایجنڈے پر کار فرماہوکر یا دباو میں آکر اس بڑے پراجیکٹ کو کسی کھائی میں دھکیلنے کی کوشش نہ کرے ۔