اقوام متحدہ کا انصاف!؟

  کابل میں اقوام  متحدہ  سے منسلک دفتر ’یوناما‘کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’رواں سال   کے ابتدائی  چھ ماہ  کے دوران  افغانستان   میں 1601 افراد  جاں  بحق، جب کہ  3565 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس  طرح جاں  بحق و زخمی ہونے والے افراد  کی  کل تعداد 5166 ہے،  جو گزشتہ  سال  کی  نسبت […]

 

کابل میں اقوام  متحدہ  سے منسلک دفتر ’یوناما‘کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’رواں سال   کے ابتدائی  چھ ماہ  کے دوران  افغانستان   میں 1601 افراد  جاں  بحق، جب کہ  3565 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس  طرح جاں  بحق و زخمی ہونے والے افراد  کی  کل تعداد 5166 ہے،  جو گزشتہ  سال  کی  نسبت چار گنا زیادہ  ہے۔‘

کابل میں یوناما دفتر کے  سربراہ ’تادا میچی یاماموتو‘ نے کہا  ہے کہ  ’ددنوں جنگی فریق عام شہریوں کے  زندگیاں  بچانے میں  ناکام  رہے ہیں۔‘

انسانی  حقوق  کی تنظیم  میں اقوام متحدہ کے  کمشنر ’رعدحسن‘ نے  کہا ہے کہ  ’افغان جنگ کے دوران  رواں سال کے  ابتدائی  چھ ماہ کے دوران  عام شہریوں کی  ہلاکتیں حیران کن اور  شرم ناک   ہیں۔‘

یہ  یوناما کی جانب سے جاری ہونے  والی پہلی  رپورٹ ہے،  جس میں  انہوں نے  عام شہریوں کی  90 فیصد ہلاکتوں  میں  طالبان کے ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا، لیکن دوسری جانب  امریکا اور اس کے کٹھ  پتلی اشرف غنی کو  آج تک  عام شہریوں کی اموات کا ذمہ دار  بھی نہیں قرار  دیا گیا، جب کہ حقائق عوام کی بے جا ہلاکت کے ذمہ دار کے طور پر حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا نام لینے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔

یہ  رپورٹ ایک  ایسے وقت میں سامنے آئی ہے،  جب  کہ امریکا نے اپنی وحشی  افواج کو افغانستان میں  ایک مرتبہ پھر  افغان عوام پر بمباری کرنے،اُن کے خلاف سرچ آپریشن بروئے کار لانے اور ظلم و ستم کی کھلی    چھوٹ دے  دی ہے۔ جب کہ امریکی سرپرستی میں ظلم کے پہاڑ توڑنے والے جنگ جُو بھی اسلحے کے استعمال کی اجازت کے بعد کسی قصور وار اور بے گناہ کی تمیز کرنے کے روا دار نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی اتحادیوں پر مظلوموں کا خون پینے کا جادو کر دیا گیا ہے، جو کسی طور اُترنے کا نام نہیں لے تہا ہے۔

افغان پارلیمنٹ کے نام پر قائم ڈاکوؤں کی کمین گاہ میں بیٹھے افراد نے  مطالبہ کیا  ہے کہ ’امریکی  افواج  افغانستان میں کروز میزائل  سمیت بڑے بڑے  بم استعمال نہ کریں، کیوں کہ  یہ بڑی تباہی کا سبب  بن سکتے ہیں۔‘اس کمین گاہ  کےا  رکان میں سے ’ہمایوں‘  اور ’قادرزازی‘ کہتے ہیں: ’افغانستان  کے  حالات  بھاری ہتھیاروں  کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے۔ کیوں کہ  اگر  امریکی افواج  کروز میزائل اور بڑے  بم استعمال کریں گے تو  یہ عمل کثیر تعداد میں  شہریوں کی اموات اور بڑی تباہی کا موجب  بنے گا۔

یہ پہلا موقع ہے  ’امارت اسلامیہ کی عادلانہ حکومت کے ختم کیے جانے‘ کے بعد غیرملکی افواج  مجاہدین کو دام میں لانے کے لیے کروز میزائل کا استعمال  بھی کر نے لگی ہیں۔ صرف صوبہ ننگرہار میں اب  تک غیرملکی جارحیت پسندوں نے    25 کروز میزائل داغ دیے ہیں۔

دوسری  جانب کابل  ادارے کے  کٹھ پتلی  سربراہ بار بار  مطالبہ  کر رہے  ہیں کہ ’ہمار ا دوست امریکا، مجاہدین پر  حملوں  میں  تیزی لاتے ہوئے مزید میزائل   استعمال کرے۔‘ گزشتہ  دن   ہلمند میں خود کو گورنر کے طور پر عوام پر مسلط کرنے والے شخص ’حیات اللہ حیات‘ نے  چاپلوسی کی انتہا کرتے ہوئے امریکی آقاؤں سے درخواست کی کہ  ’موجودہ  بمباریاں کافی  نہیں ہیں، ہماری چاہت ہے کہ امریکا بمباری میں مزید  تیزی  لائے۔‘

’واٹسن‘  نامی ایک  بین الاوقوامی این  جی او کی جانب سے  یہ  رپورٹ شایع ہوئی ہے: ’ گزشتہ  14 سالوں کے دوران  غیرملکی   افواج کی  جانب سے افغانستان  میں  فضائی  حملوں کے دوران ایک لاکھ  افغان  عوام موت کے منھ میں بھیج دیے گئے ہیں۔ جب کہ یہ کوئی بتانے والی بات نہیں ہے کہ فضائی دہشت گردی صرف امریکا اتحاد کی جانب سے ہی کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود امریکا  ،  اس کے کٹھ پتلی   غنڈوں اور یوناما نے امریکا کے ہر حملے کے بارے میں یہی کہا ہے کہ اس میں نشانہ بننے والے ’سب افراد‘ مجاہدین تھے۔

ہلمند سے حیات اللہ  حیات   نے  ایسے وقت میں غیرملکیوں سے  بمباری کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین تہی دست ہونے کے باوجود ہلمند میں پیش قدمی کی  حالت میں ہیں۔ اور  دشمن کے مقابلے  میں  نہایت قلیل  وسائل سے  بہت بڑے علاقے فتح کیے  ہیں۔

اب  بات یہ  ہے کہ  عام شہریوں کی اموات کے واضح ثبوت موجود ہیں، جو امریکی جارحیت پسندوں کی  جانب  سے ہی سامنے  آئے ہیں۔ کابل  کے    بعض سرکاری افراد، پارلیمنٹ (کمین گاہ) کے ارکان اور غیرجانب دار  بین الاقوامی تنظیموں   کے  بیانات  اس بات کی  گواہی دیتے ہیں کہ  عام شہریوں کی اموات میں غیرملکی جارحیت پسند اور ان کے  کاسہ لیس  براہِ راست  ملوث  ہیں۔اس کے ساتھ ہی  یوناما کی جانب سے امریکی  جارحیت پسندوں کے ہر فیصلے  کی تائید کی  گئی ہے۔ کیا اس سال عام شہریوں کی  اموات میں یوناما خود  شریک  نہیں ہے؟

وہ اس  طرز کی  رپورٹیں شایع کر کے کس ’منصف‘ سے انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے؟  کیا  اسے واقعی  افغان شہریوں کی مو ت پر  دکھ ہے؟ کیا وہ  واقعی  قاتلوں کی  طرف  اشارہ   کر  رہا ہے یا  پھر یہ  رپورٹیں بھی ’فکری جنگ کے منافع بخش حصص خریدنے‘ کے لیے جاری کی جاتی ہیں؟!!