کابل

امارت اسلامیہ افغانستان کی کامیاب خارجہ پالیسی

امارت اسلامیہ افغانستان کی کامیاب خارجہ پالیسی

تبصرہ: الامارہ اردو
کم و بیش ڈھائی سال قبل امارت اسلامیہ افغانستان نے بیس سالہ جد و جہد کے بعد امریکی سامراج کے تابوت میں آخری کیل ٹونک دیا اور افغانستان سے بے دخل کر دیا۔ ملک کی جغرافیہ پر مکمل طور پر امارت اسلامیہ کی حاکمیت قائم ہوگئی۔ ڈھائی سال سے یہ حکومت اپنے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اندرونی اور بیرونی سطح پر پالیسیاں بنا رہی ہے۔ یہ حکومت اپنی پالیسیاں خود بنا رہی ہے۔ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتی، نہ کسی کے زیر اثر ہے۔ بیرونی قرضوں سے پاک ہے۔ وطن عزیز میں ہر قسم کی جنگیں اور تشدد ختم ہو چکا۔ امن و سلامتی قائم ہو چکا ہے۔ کرپشن اور منشیات فروشی، بھتہ خوری اور لوٹ مار کا بازار جو پچھلے دو عشروں سے گرم تھا اب بند ہو چکا ہے۔
اگرچہ امریکہ اور مغرب دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، لیکن امارت اسلامیہ ایک متوازن اور کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے یہ حقیقت تسلیم کرلی اور اپنے مفادات کے پیش نظر امارت اسلامیہ افغانستان کے تعلقات استوار کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں چین نے افغانستان کا سفیر قبول کر لیا اور کابل میں باقاعدہ طور پر اپنا سفیر بھیج دیا۔ کچھ عرصہ قبل آذربائیجان نے کابل میں اپنا سفارتخانہ کھولا۔ روس، ایران، پاکستان، ہندوستان، ترکمانستان اور قطر کے سفارت خانے پہلے سے ہی امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہیں۔
اس کے علاوہ ازبکستان کے وزیر خارجہ بختیار سعیدوف بھی سرکاری دورے پر کابل آئے اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ امان و امان کی بحالی اور منشیات کے خلاف امارت اسلامیہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے امارت اسلامیہ افغانستان کا سفیر قبول کرنے کا عندیہ دیا۔
خطے کے ممالک یہ حقیقت جانتے ہیں کہ افغانستان خطے کے ممالک کے درمیان رابطے کا محور اور وسیلہ ہے۔ امارت اسلامیہ بھی خطے کے ممالک کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ افغانستان کے راستے سے تجارت کرکے اپنی معیشت کو مستحکم کرے۔ جس سے نہ صرف خطے کے ممالک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے بلکہ افغانستان بھی معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہے کہ کہ موجودہ حکومت خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے مضبوط پالیسیاں اپنا رہی ہے۔ مگر ان اقدامات اور سیاسی و سفارتی پیش رفت پر قناعت نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ خطے کے ممالک کے علاوہ افغانستان سے جغرافیائی طور پر دور ممالک بھی افغانستان کے قریب ہو اور افغانستان کے ساتھ تعمیری سیاسی و معاشی تعلقات کا قیام اپنی ضرورت سمجھ کر آگے آئیں۔