کابل

امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈے کے مقاصد کیا ہیں؟

امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈے کے مقاصد کیا ہیں؟

 

تحریر: سیف العادل احرار
افغانستان پر نصف صدی کے دوران دنیا کی دو عالمی طاقتوں نے جارحیت کا ارتکاب کیا جن کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کو شہید، زخمی، لاپتہ اور ہجرت پر مجبور کیا گیا، دس سال سوویت یونین کی جارحیت کے دوران اور بیس برس تک امریکی جارحیت کے دوران کٹھ پتلی حکومتیں بھی قائم رہیں، ان دونوں ادوار میں لاکھوں نہتے شہریوں کی زندگیوں سے جو غیر انسانی سلوک کیا گیا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے اس حوالے سے کبھی کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا بلکہ ان کی جانب سے تو انسانیت سوز مظالم ڈھانے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا، بدنام زمانہ عقوبت خانہ گوانتانامو کو ہر قسم قانون سے بالاتر مقام حاصل تھا، بگرام میں نہتے قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے کی داستانیں انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہیں، کتنے معصوم بچے، خواتین اور بزرگ شہری امریکی فضائی حملوں کے نشانہ بن کر ابدی نیند سو گئے لیکن کسی نے ان مظالم پر آواز نہیں اٹھائی۔

تاہم جب اس جنگ زدہ ملک میں امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے قلیل مدت میں 45 برس کی بدامنی، انارکی اور بحرانوں کا خاتمہ کرکے مثالی امن قائم کیا، چھوٹے، بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کر دیا، معاشی استحکام لانے کے لئے حوصلہ افزا اقدامات اٹھائے، منشیات کی پیداوار پر مکمل پابندی لگائی، منشیات کے لاکھوں عادی افراد کا علاج شروع کیا گیا، بے روزگاری کے خاتمے کے لئے سینکڑوں منصوبے شروع کئے گئے، بھکاریوں، یتیموں، بیواووں اور معذور افراد کے لئے ماہانہ وظائف مقرر کرنے کا اہتمام کیا گیا، داعش جیسے شرپسند عناصر کا قلع قمع کیا گیا، خواتین کے بنیادی حقوق سے متعلق حضرت امیرالمومنین نے چھ نکات پر مشتمل فرمان جاری کیا، ان کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات کو دو طرفہ اقتصادی و تجارتی تعلقات میں تبدیل کرکے سب کو مثبت پیغام دیا، دو بڑی عالمی قوتوں کے درمیان متوازن پالیسی اختیار کرکے سب کے ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا، اس کے باوجود اقوام متحدہ نے ان تمام پیشرفتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پروپیگنڈے پر مبنی ایک رپورٹ شائع کر دی جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سیکورٹی کے واقعات میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ نے امریکی جارحیت کے دوران کیوں اس طرح رپورٹ شائع کرنے کی زحمت نہیں کی؟ کیا اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا اور اب ملک میں شدید بحران، بدامنی، انارکی اور قتل عام جاری ہے؟ کیا اس وقت تمام خواتین کے حقوق محفوظ تھے اور اب خواتین کے تمام حقوق پامال ہورہے ہیں؟ کیا اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہیں ہوتا تھا اور اب آئے روز انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سینکڑوں واقعات رونما ہو رہے ہیں؟ کیا اس وقت دارالحکومت کابل میں ایک موبائل چھیننے پر نوجوانوں کو قتل نہیں کیا جاتا تھا؟ کیا اس وقت کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں منظم انداز میں اغواکاروں کے متعدد نیٹ ورکس موجود نہیں تھے؟ کیا اس وقت داعش کے عناصر کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں کابل شہر میں بڑے المناک واقعات کے مرتکب نہیں ہورہے تھے؟ اس دور کے مقابلے میں کیا اب امن نہیں آیا ہے؟ کیا اب ایک سال کے دوران داعش کے دھماکے ختم نہیں ہوئے؟ کیا اغواکاروں کے نیٹ ورکس ختم نہیں ہوئے؟ کیا چوری اور دیگر جرائم کی شرح میں واضح طور پر کمی نہیں آئی؟ کیا منشیات کی پیداوار نمایاں طور پر ختم نہیں ہوئی؟ کیا اقتصادی لحاظ سے افغانستان نے ترقی نہیں کی؟ کیا اس کی کرنسی میں 15 فیصد استحکام نہیں آیا؟

ان تمام تر مثبت پیشرفتوں کے باوجود امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا بدنیتی کے سواء کچھ نہیں ہے، اقوام متحدہ ایک بے بس ادارہ ہے جو فلسطین میں نہتے انسانوں پر اسرائیل کی درندگی کو روکنے کے لئے کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، تاہم افغانستان میں امارت اسلامیہ پر دباو بڑھانے اور امریکی احکامات کو منوانے کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرکے درحقیقت اپنی ساکھ داو پر لگا رہی ہے، افغان عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کتنی حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ سوشل میڈیا کے صارفین اور نجی ٹی وی چینلز میں سیاسی تجزیہ نگار اس رپورٹ پر جو ردعمل ظاہر کر رہے ہیں ان سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ افغان عوام پروپیگنڈے پر مبنی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کیوں اس قسم کی رپورٹوں سے اپنی حیثیت متنازع بنا رہی ہے، اقوام متحدہ اگر امارت اسلامیہ سے کوئی مطالبہ کرتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے افغانستان کو اپنی نمائندگی کا حق دے، امارت اسلامیہ کے حکام پر لگائی گئی پابندیاں ہٹائیں اور امریکہ کی جانب سے منجمد کئے گئے اثاثے بحال کرنے میں کردار ادا کرے پھر امارت اسلامیہ کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں اور باہمی مفاہمت کے ذریعے مسائل کا حل نکالے۔

اگر امارت اسلامیہ پر دباو بڑھانے سے مسائل حل ہوتے تو بیس برس کے تمام حربے ہمارے سامنے ہیں، امریکہ اور مغرب نے اس قسم کے کتنے حربے استعمال کئے، کبھی امارت اسلامیہ میں اختلافات کی خبریں شائع کرتے تھے، کبھی امارت اسلامیہ اور داعش کے درمیان گہرے تعلقات کا پروپیگنڈہ کرتے تھے، کبھی پاکستان، ایران اور روس سے اسلحہ لینے کا الزام لگاتے تھے لیکن ان تمام تر حربوں اور پروپیگنڈوں کے باجود امارت اسلامیہ نے سر خم کیا اور نہ ہی عوامی حمایت اور پذایرائی میں کوئی کمی آئی بلکہ اس وقت بھی عوام نے تمام تر پروپیگنڈوں کے باوجود امارت اسلامیہ کی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد کرکے اپنی تائید بخشی اور اب بھی وہ امارت اسلامیہ پر پہلے سے زیادہ اعتماد کر رہے ہیں، اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ امارت اسلامیہ کے قائدین اس قسم کے ہتھکنڈوں اور دباو سے مرعوب ہوں گے اور نہ ہی اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹیں گے، یہ سب کچھ جارحیت کے بیس سالہ دور میں ثابت ہوچکا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ پروپیگنڈے کی آڑ میں دباو بڑھانے کے بجائے مفاہمت اور سفارت کاری کا راستہ اختیار کریں اور باہمی مسائل کا حل تلاش کریں جس طرح دوحہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے، اسی طرح اب بھی باہمی مسائل مذاکرات کے ذریعے ہی حل کریں جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔