امیر المؤمنین رحمہ اللہ کا مرقد مبارک

ترتیب وترجمہ: سید عبد الرزاق   گزشتہ کل بروز اتوار امارتِ اسلامیہ افغانستان کے بانی اور مؤسس، مجدد ملت اور مجاہد مردِ میدان ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے مزار کو عام زیارت کے لئے ظاہر کردیا گیاـ عالیقدر امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قبر جو کم وبیش ایک دہائی سے […]

ترتیب وترجمہ: سید عبد الرزاق

 

گزشتہ کل بروز اتوار امارتِ اسلامیہ افغانستان کے بانی اور مؤسس، مجدد ملت اور مجاہد مردِ میدان ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے مزار کو عام زیارت کے لئے ظاہر کردیا گیاـ عالیقدر امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قبر جو کم وبیش ایک دہائی سے بوجوہ پنہاں رکھی گئی تھی اب چھ نومبر کو ایک خصوصی تقریب میں نمایاں کردی گئی ـ جس کے مراسم میں امارت اسلامیہ کی چوٹی کی قیادت نے شرکت کی تھی ـ امارتِ اسلامیہ کے رئیس الوزراء ملا محمد حسن آخند، نائب رئیس الوزراء اور ملا محمد عمر مجاہد کے رفیق خاص ملا عبدالغنی برادر آخند، نوجوان وزیرِ دفاع اور جانشینِ بت شکن مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیرِ داخلہ جناب خلیفہ سراج الدین حقانی، وزیرِ خارجہ محترم امیرخان متقی، گزشتہ بیس سالہ دورِ جہاد کے عظیم رہبر اور قائد جناب صدر محمد ابراہیم اور افغانستان کے چیف جسٹس اور امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی تحریک کے بانی رکن شیخ عبدالحکیم حقانی سمیت تقریبا کل قیادت نے اس عظیم تقریب میں شرکت کی ـ
بظاہر ہونا یہ چاہیے تھا کہ چونکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی قبر کے دکھانے کے مراسم تھے جنھوں نے تحریک کی بنیاد رکھی تھی اور پھر اپنی اولو العزمی سے اس تحریک کو صحیح معنوں میں راہِ منزل پر گامزن کردیا اور اس کے لئے کامیابی کی راہ کردی تھی اس لئے ان کی قبر بھی عظیم الشان طرز سے تعمیر ہونی چاہیے تھی اور اس پر کروڑوں روپیہ خرچ کرکے شاہکار اور پرشکوہ عمارت قائم کرنی چاہیے تھی اور اس پروقار تقریب میں دنیا داری کے اصول کے مطابق دنیا جہاں کے کر وفر ہونے چاہیے تھےـ لیکن یہاں تو جس شخصیت کی قبر دکھانے کے مراسم تھے وہ بذاتِ خود بدعات وخرافات، بے جا رسوم ورواجات اور قوم وملت کی دولت کے بے جا خرچ کرنے سے نہایت بے زار تھےـ اسی لئے تو وفات بھی ایسی حالت میں آئی تھی کہ قوم اور ملت کے ایک پائے کا مقروض تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کے لئے کوئی جائیداد بنا رکھی تھی ـ اس لئے ان کی قبر کی رونمائی کی تقریب بھی نرالی تھی ـ پوری قیادت جم کر بیٹھی ـ قرآن مجید کا ختم ہوا اور روح مبارک کے لئے ایصال ثواب ہواـ پھر قیادت نے خوب رو رو کر ان کی قبر پر حاضری دی اور اللہ تعالی سے مرحوم کی نجات اور مغفرت کی جی بھر کر دعائیں مانگیں ـ
اس موقع پر قیادت نے شرکاء اور حاضرینِ مجلس سے خطاب بھی کیاـ جس میں امیرالمؤمنین مرحوم کے رفیق خاص اور ملک کے قاضی القضاۃ شیخ عبدالحکیم حقانی صاحب کا خطاب بہت ہی پر اثر اور کلیدی تھاـ
حضرت الشیخ کا فرمانا تھا کہ مرحوم امیرالمؤمنین ایک مخلص اور باعزم مجاہد تھےـ انہوں نے پوری دنیا کے سامنے دین اسلام کی اصل تصویر نمایاں کردی تھی ـ اس کے علاوہ وہ ایک باکرامت انسان تھےـ یہ ان ہی کی کرامت تھی کہ سب مجاہدین اور عوام کے دل ان کی محبت اور مقبولیت سے لبریز تھےـ مرحوم کی ایک بڑی صفت تواضع اور خاکساری تھی ـ میرے ایک بھائی تھے جو صوفی کے نام سے مشہور تھےـ وہ مرحوم کے زمانہ طالب العلمی کے دوست تھےـ مرحوم جب امیرالمؤمنین بنے تب بھی پابندی سے تشریف لاتے تھے اور میرے بھائی سے بے تکلف اور آزاد مجلس فرماتے تھےـ
حضرت الشیخ کا فرمانا تھا کہ امیرالمؤمنین پیکرِ غیرت تھےـ یہ ان کی غیرت کو گوارا نہیں تھا کہ لچے لفنگے لوگ عوام کو تنگ کریں اور ان کی عزت وناموس پر حملہ آور ہوـ چنانچہ اسی فساد کے سد باب کے لئے انہوں نے تحریک کی بنیاد رکھی ـ مجھے یاد ہے اس وقت میں ایک جگہ دورہ حدیث کے اسباق پڑھاتا تھا ـ امیرالمؤمنین میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میں نے ملک میں جاری فساد کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کا ارادہ کیا ہےـ آپ اپنے طلبہ کو میرے ساتھ کردیں ـ ان کی غیرت اللہ کو بھی اس قدر محبوب تھی کہ ایک دن بھی سرزمینِ افغانستان سے نہ نکلے لیکن اللہ تعالی نے انہیں مشرکین اور کفار سے بچائے رکھاـ جس طرح اللہ تعالی نے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو شہد کی مکھی کے ذریعہ مشرکینِ مکہ کے قبضہ سے محفوظ رکھا ایسا ہی اللہ تعالی مرحوم امیرالمؤمنین کو بھی محفوظ رکھاـ
امیرالمؤمنین مرحوم بہت بلند عزائم کے مالک تھےـ شرعی حدود اور احکام کے اجراء میں اپنوں اور پرایوں کا کوئی امتیاز نہیں رکھتے تھےـ امتیاز تو درکنار ان کا تو ہمیشہ موقف یہ ہوا کرتا تھا کہ جب مجھے کسی شرعی حکم کا پتہ چلتا ہے تو سب سے پہلے میں وہ حکم اپنے وجود پر نافذ کرتا ہوں پھر دوسروں کے بارے حکم دیتا ہوں ـ
اس شاندار اور یادگار اجتماع سے مرحوم امیرالمؤمنین کے رفیق خاص اور دیرینہ ساتھی الحاج ملاعبدالغنی برادر آخند نے چند پرکیف جملوں سے مجلس کو رونق بخشی ـ ان کا فرمانا تھا کہ آج ایک خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا ہےـ فرمایا جب میں جیل سے رہا ہوا تو موجودہ امیرالمؤمنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ اور ان کے دونوں نائبین ملا محمد یعقوب مجاہد اور خلیفہ سراج الدین حقانی اصرار کررہے تھے کہ آپ قطر میں موجود سیاسی دفتر کے سربراہ کا عہدہ قبول کرلیں ـ لیکن میں شروع میں کسی بھی عہدہ کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھاـ جب ان کی طرف سے شدت کی گئی تو مجبورا قبول کرلیاـ اسی دوران میں خواب دیکھ رہا تھا کہ ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ ایک جگہ اس حالت میں ہے کہ ان کا سر تن سے جدا ہیں ـ ان کے ساتھ ایک سرسبز درخت بھی موجود ہےـ میں نے جب یہ حالت دیکھی تو مرحوم امیر کا سر ان کے تن سے جوڑدیاـ اور اس کے بعد بیدار ہواـ فرمایا کہ اس وقت میں نے اس خواب کی تعبیر یہ نکالی کہ مرحوم امیر کا جسد امارتِ اسلامیہ کا عسکری حصہ ہےـ اور ان کا سر سیاسی حصہ ہےـ اور میں نے جو ان دونوں حصوں کو ملایا ہے وہ شاید اللہ تعالی مجھ سے یہ کام لے رہا ہے کہ میں امارتِ اسلامیہ کی عسکری کامیابیوں کے ساتھ سیاسی کامیابیاں بھی جوڑدوں ـ چنانچہ اللہ تعالی نے ایسا ہی کردیا اور آج جب ہم مرحوم امیر کی قبر پر کھڑے ہیں تو اس کواب کی تعبیر مکمل طور پر سامنے آگئی ہے الحمدللہ ـ
الحاج ملا عبدالغنی برادر کی اس بات پر مجلس پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی ـ اشکوں اور آہوں کے ساتھ شرکاء مجلس نے تکبیر کے نغموں سے فضاء کو چھیردیاـ
اس پر وقار تقریب سے وزیرِ خارجہ محترم امیرخان متقی نے بھی جامع خطاب فرمایاـ ان کا کہنا تھا کہ مرحوم امیرالمؤمنین نے ایک ایسے وقت میں اسلامی تحریک اور اسلامی نھضت کی بنیاد رکھی جس وقت اس کی کامیابی کے دور دور بھی آثار نظر نہیں آتے تھےـ لیکن مرحوم نے ثابت کردیا کہ ایسے وقت میں اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی بھی جاسکتی ہے اور کامیابی سے ہمکنار بھی کرائی جاسکتی ہےـ کفار کا دعوی تھا کہ ہم زیرِ زمین دو انچ اشیاء اپنی جدید اور مضبوط ٹیکنالوجی کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں ـ لیکن مرحوم امیرالمؤمنین نے ان کے اس دعوی کو بھی غلط ثابت کردیاـ تیرہ سال اس گاؤں میں رہے اور کفار اپنی مضبوط ٹیکنالوجی سمیت ان کا پتہ لگانے میں کامیاب نہ ہوسکےـ
وزیر خارجہ صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اب مرحوم کے نقش قدم پر چلنا چاہیےـ مرحوم ہمارے لئے خاکساری، غیرت اور سیاست میں مشعلِ راہ ہیں ـ مرحوم کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اپنے دین ووطن اور اپمے ساتھیوں کے ساتھ انتہاء درجہ وفادار تھےـ جس سخت حالات میں وہ اس گاؤں میں زندگی گزاررہے تھے اس وقت ان کی سب سے اہم ترین ہدایت یہ تھی کہ اپنے ساتھیوں کو گوانتنامو قید سے رہائی دلوائیں ـ چنانچہ ان کے متین عزم اور بے پناہ اخلاص کی برکت تھی کہ اللہ تعالی نے گوانتنامو سے ہمارے سب ساتھی رہا کردئیےـ امیرالمؤمنین مرحوم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ حاجی بشر تحریک کے ابتدائی اور بانی ارکان میں سے ہے اور میری شدید تمنا ہے کہ وہ گوانتنامو سے رہا ہوـ آج آپ دیکھ رہے ہیں اس مجلس میں حاجی بشر بھی موجود ہیں الحمدللہ ـ
امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات نوسال قبل ہوئی تھی ـ لیکن سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ان کی قبر پوشیدہ رکھی گئی تھی ـ ملک میں بیرونی جارحیت قائم تھی اور مرحوم نے پوری دنیا کی دشمنی سر پہ لی تھی ـ اس لئے خطرہ بہت زیادہ تھا کہ دشمن انہیں زندگی میں تو نقصان نہیں پہنچا سکا اب وفات کے بعد بے عزتی اور اپنی گھٹیا خصلت کے مطابق پستی پر اتر آئے گاـ تو قیادت کا فیصلہ یہ ہوا کہ فی الحال کے لئے قبر کو روپوش رکھا جائےـ
امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے امریکی جارحیت کے بعد صوبہ زابل کے ضلع سیوری میں پناہ لی تھی ـ اور پھر تا دمِ وفات یہیں رہے تھےـ ضلع سیوری کے ایک مضافاتی علاقہ “عمرزئی” کے نام سے مشہور ہیں ـ یہیں پر مرحوم نے رہائش رکھی تھی اور جب وفات ہوئی تو اعزہ واقرباء نے یہیں دفن بھی کیاـ جو صوبہ زابل کے لئے بڑا اعزاز بن گیاـ