بھاری ہتھیاروں سے شہریوں کی اموات ‏

  گذشتہ دو دنوں سے  کابل کی کٹھ  پتلی   اہلکاروں کےبھاری   ہتھیاروں کی  فائرنگ سے  درجنوں افغان شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ گذشتہ دن صوبہ پروان کےضلع سید خیل  کےانچو نامی  علاقے میں  کٹھ پتلی   اہلکاروں  جنازے کے  شرکاء پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 9 شہری شہید اور 15 زخمی ہوئے۔ جبکہ  بیس […]

 

گذشتہ دو دنوں سے  کابل کی کٹھ  پتلی   اہلکاروں کےبھاری   ہتھیاروں کی  فائرنگ سے  درجنوں افغان شہری شہید اور زخمی ہوئے۔

گذشتہ دن صوبہ پروان کےضلع سید خیل  کےانچو نامی  علاقے میں  کٹھ پتلی   اہلکاروں  جنازے کے  شرکاء پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 9 شہری شہید اور 15 زخمی ہوئے۔ جبکہ  بیس افراد کو  گرفتار  بھی کیا گیا۔

اسی طرح صوبہ  ننگرہار کے ضلع سرخرود  کے علاقے  کڑسوخوڑ   میں مسلح  کٹھ پتلیوں نے   شہری  آبادی پر مارٹر  گولے  پھینکے اس حملے میں کئی گھروں کو نقصان پہنچا  جبکہ ایک گھر  میں ایک خاتون  سمیت ایک بچہ شہید ہوا  اور اس گھر کا مالک اللہ دوست سمیت ایک  بچہ زخمی ہوا۔

17 جولائی قندوز کے  مرکز سے ملحقہ کلتہ تائی کے علاقے میں کٹھ پتلیوں کے   مارٹر  گولے کے  ایک  حملے  ایک  بچے سمیت  تین  افراد  زخمی ہوئے۔

16 جولائی کو  ننگرہار کے ضلع خوگیانو  کے علاقے  وزیر میں کابل کیے کٹھ  پتلی اہلکاروں  کے   بھاری   ہتھیاروں کے  ایک حملے  میں ایک  بچے سمیت دو افراد شہید جبکہ  دو  افراد زخمی ہوئے۔

14 جولائی کوصوبہ زابل کے  مرکز  قلات کے قریب کٹھ پتلی  اہلکاروں   کے مارٹر  گولے کے ایک  حملے  میں ایک ہی خاندان کے   2 بچے شہید جبکہ  عورتوں اور  بچوں سمیت 5افراد زخمی ہوئے۔

عوام کو بھاری  ہتھیاروں کے  حملوں کے ساتھ جارحیت پسندوں او ر کابل کی کٹھ پتلیوں کے  فضائی  حملوں، چھاپوں اور ڈرون حملوں  میں  بھی  جانی اور مالی نقصانات  پہنچتے ہیں۔ مثال کے طورپر  کچھ عرصہ قبل  کندھار کے ضلع میوند سے  ملحقہ ریگ شہیدان کے  علاقے میں جارحیت پسندوں نے  عام شہریوں کے 4 گاڑیوں کو  نشانہ  بنایا جس میں  20 شہری  شہید  ہوئے۔

جارحیت پسندوں اور   کابل   کے  کٹھ پتلیوں کے  ترجمان نے دعوہ کیا کہ  اس حملے  میں 30 مجاہدین کے  شہید کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ  جارحیت پسندوں کے  اس حملے  سب عام شہری  نشانہ  بنے ہیں۔

اس  سے قبل  بھی  صوبہ کندھار کے ضلع خاکریز میں جارحیت پسندوں کی بمباری میں 2 خواتین سمیت5 افراد شہید اور 4 زخمی ہوئے۔

جارحیت  پسندوں اور  ان کے کٹھ پتلی غلاموں نے مجاہدین  کےساتھ مقابلے کے دوران، مقابلے کے بعد یا بغیر کسی  وجہ  کے  عام  لوگوں کو  نشانہ بنایا ہے اور انہیں  بھاری  جانی اور مالی  نقصانات پہنچائے ہیں۔ شہریوں کو پہنچنے والے  مذکورہ   نقصانات  افغان عوام کےساتھ  غیر ملکی جارحیت پسندوں اور ان کے  داخلی غلاموں کے  وحشت اور مظالم کی   روشن مثالیں ہیں۔

بھاری  ہتھیاروں کے استعمال میں اس وقت تیزی آئی جب اشرف غنی   صدارت سنبھالتےہی اپنے   مسلح جنگجوّوں کو  بھاری  ہتھیاروں کے استعمال کی مکمل  آزادی دی اور  مسلح وحشیوں نے  بھی  ان ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال شروع کیا۔ بھاری ہتھیار عام شہریوں کی  اموات کی سب سے  اہم اسباب میں   سے ہیں جن کا  استعمال  روزانہ  درجنوں  شہریوں کو ابدی نیند سلادیتی ہے  ان کے  گھر تباہ ہو جاتے ہیں اور بہت سے خاندانوں کی خوشی کو غم  میں   بدل  دیتے ہیں۔