کابل

حرام اور مشکوک مال کے اثرات

حرام اور مشکوک مال کے اثرات

 

محمد افغان

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّھَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً۔ (البقرۃ: 168)
اے لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ پیو!
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ۔ (سورۃ النساء: 29)
اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔
حرام مال کی تعریف، وضاحت:
حرام مال وہ ہوتا ہے، جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا ہو اور اُس کے استعمال اور کھانے پینے پر روک لگائی ہو۔
جیسے سُود کی رقم، رشوت کا مال، چوری اور ڈاکا زنی کا مال، جھوٹی قسم کھا کر کمایا گیا مال، زنا و شراب اور جُوے سے کمائی گئی رقم، جھوٹی گواہی اور وکالت کے ذریعے کمایا ہوا مال، یتیم کی اجازت کے بغیر اُس کا استعمال کیا جانے والا مال، دوسرں کی وراثت کا مال، گانا بجانا اور فلم وغیرہ کے ذریعے کمایا ہوا مال۔ اسلام میں ایسے حرام مال کے کمانے، کھانے اور استعمال سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ کیوں کہ اوّل تو یہ مال اللہ تعالی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب بنتا ہے۔ دوم ایسے مال کے کمانے، کھانے اور استعمال سے معاشرے میں مختلف طرح کے بگاڑ پیدا ہوتے ہیں، جس سے معاشرتی زندگی بُری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔
مشکوک مال کی تعریف، وضاحت:
مشکوک یا مشتبہ وہ مال ہوتا ہے، جس کے حلال اور حرام ہونے کے بارے میں شریعت کے احکام مختلف ہوں۔ اس کے حلال اور حرام، دونوں حوالوں سے دلائل موجود ہوں، اِسی لیے اُس چیز کے بارے میں کوئی بھی واضح حکم لگانا مشکل ہو۔
وضاحت:
اس کی وضاحت صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1070 میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نقل کردہ ایک واقعے سے سمجھی جا سکتی ہے:
“وَاللہِ إِنِّي لأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي – أَوْ فِي بَيْتِي – فَأَرْفَعُهَا لآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً – أَوْ مِنَ الصَّدَقَةِ – فَأُلْقِيهَا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں ایک مرتبہ گھر واپس آیا تو مَیں نے اپنے بستر یا گھر میں کھجور کا دانہ دیکھا، چناں چہ مَیں نے وہ اُٹھا لیا، تاکہ وہ کھجور کھا لوں۔ پھر مجھے اِس کھجور کے بارے میں یہ گمان ہوا کہ شاید یہ صدقے کی ہے تو مَیں نے وہ کھجور رکھ دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف صدقے کے شُبہ / شک کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی۔ اِس حدیث میں مشکوک یا مشتبہ مال کے حوالے سے کافی وضاحت موجود ہے۔ایک طرف وہ کھجور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے کی وجہ سے بظاہر ملکیت میں اور حلال تھی کہ آپ علیہ السلام وہ کھا سکتے تھے۔ جب کہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ منع تھا۔ اس لیے آپ علیہ السلام کو یہ گمان ہوا کہ ممکن ہے کھجور کا یہ دانہ کسی کے صدقے کے مال سے رہ گیا ہو۔ یہاں حلال اور حرام، دونوں احکامات کے دلائل موجود تھے۔ جس کی وجہ سے کھجور کے اس دانے پر حلال یا حرام کا کوئی واضح حکم لگانا بہت مشکل معاملہ تھا۔ اس لیے یہ مشکوک یا مشتبہ بن گئی۔
شریعت میں ایسے ہی مشکوک مال کے استعمال سے منع کیا گیا ہے۔کیوں کہ مشکوک اور مشتبہ چیزوں کا استعمال انسان کو حرام کے قریب لے جاتا ہے۔ مشکوک اور مشتبہ چیزوں کے حوالے سے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ مشکوٰۃ المصابیح کی حدیث نمبر 2762 میں مزید وضاحت موجود ہے:
الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ۔ فَمَنِ اتَّقَى الشبُّهَاتِ، استبرَأَ لدِينهِ وعِرْضِهِ۔ ومَنْ وقَعَ فِي الشبُّهَاتِ، وَقَعَ فِي الْحَرَامِ۔ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ۔ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللہِ مَحَارِمُهُ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال بھی ظاہر ہے حرام بھی ظاہر ہے۔ ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں، جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کر لیا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک و محفوظ بنا لیا۔ ( یعنی مشتبہ چیزوں سے بچنے والے کے نہ تو دین میں کسی خرابی کا خوف رہے گا اور نہ کوئی اس پر طعن و تشنیع کرے گا۔) جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا، وہ حرام میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی مثال اُس چرواہے جیسی ہے، جو (اپنے جانور) ممنوعہ چراگاہ کے کنارے پر چراتا ہے۔ (وہاں) ہر وقت اِس بات کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور (دوسرے شخص کی) ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہو کر چرنے لگیں۔ سمجھ لو کہ ہر بادشاہ کی کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام کردہ چیزیں ہیں۔
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اگر وہ چرواہا اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کے کنارے پر چرائے گا تو اس بات کا ہر وقت اندیشہ رہے گا کہ اس کے جانور دوسرے شخص کی چراگاہ میں داخل ہو جائیں گے۔ جس کے نتیجے میں اوّل تو اِس چرواہے کے جانور کسی دوسرے کا چارہ اُس کی اجازت کے بغیر کھائیں گے، جس سے اِن جانوروں کا مالک حرام دودھ اور حرام گوشت کے استعمال میں مبتلا ہو جائے گا۔ دوم یہ کہ جانوروں کے دوسرے کی چراہ گاہ سے گھاس کھانے پر جانورں کے مالک اور چراہ گاہ کے مالک کے درمیان لڑائی جھگڑا بن سکتا ہے۔
حرام اور مشکوک مال کے اثرات:
مشکوک مال کا مسئلہ سنگین یوں کہ ہے کہ مشتبہ مال کے استعمال سے حلال و حرام کی تمیز پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ تب انسان یہ نہیں دیکھتا کہ وہ حلال کما اور کھا رہا ہے یا حرام میں مبتلا ہو گیا ہے؟! بنیادی طور پر مشکوک مال کا استعمال زیادہ سے زیادہ مال اِکٹھا کرنے کی حرص کا نتیجہ ہے۔ بعدازاں یہی حرص انسان کو مشکوک مال سے آگے بڑھا کر حرام مال کی طرف لے جاتا ہے۔
حرص کے حوالے سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ کی روایت کردہ ایک حدیث مشکوٰۃ المصابیح میں نمبر 1865 پر موجود ہے:
اتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاتَّقُوا الشُّحَّ فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ: حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمهمْ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظلم سے بچو، بے شک ظلم قیامت کے دن اندھیرے کی صورت میں ہوگا۔ (اسی طرح) حرص سے بچو۔ اس لیے کہ اِس حرص نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حرص نے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ (باہم) اُن کا خون بہائیں اور حرام کی گئی چیزوں کو حلال کریں۔
حدیث میں حرام مال کی مذمت:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حرام مال کی حُرمت اور مذمت کے حوالے سے مشکوٰۃ المصابیح کی حدیث نمبر 2772 میں نہایت اہم فرمان موجود ہے:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نبَتَ منَ السُّحْتِ وكلُّ لحمٍ نبَتَ منَ السُّحْتِ كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جسم حرام مال سے پلا بڑا ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا اور جو بھی جسم حرام مال سے پرورش پائے گا، (اُس کی حرام خوری کی وجہ سے) آگ ہی اُس کے لیے مناسب (ٹھکانہ) ہے (کہ وہ جنت کے بجائے جہنم میں رہے۔)
اِس حدیثِ پاک میں اللہ رب العزت کی طرف سے انتہا درجے کی سخت وعید اور ناراضی سے خبردار کیا گیا ہے۔
حرام مال سے صدقہ و زکوٰۃ ادا نہیں ہوتے:
صدقہ و زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذوق بہت ہی عمدہ عمل اور معاشرے کی بھلائی کا بہترین طریقہ ہے۔ البتہ صدقہ و خیرات وغیرہ کے لیے دیے جانے والے مال کے حوالے سے یہ بہت ضروری اور ناگزیر ہے کہ ایسے عطیات خصوصی طور پر حلال مال سے ہی ادا کیے جائیں۔ مال کمانے میں چاہت و کوشش کا مظاہرہ عمدہ سوچ ہے۔البتہ ایسی چاہت و کوشش شریعت کی حدود میں رہے تو یہ مباح اور پسندیدہ عمل ہے۔ جب کہ بعض حالات میں مال کمانا بہت ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ البتہ مال کما نے کی دُھن میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ وہ مال حلال طریقے سے کمایا جا رہا ہے یا حرام ذریعے سے دولت جمع کی جا رہی ہے۔ اِس تناظر میں صحیح البخاری کی حدیث نمبر 2059 میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلاَلِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اُس نے جو حاصل کیا ہے، وہ حلال سے ذریعے سے ہے یا حرام راستے سے ہے؟!
بہت ضرورت ہے کہ مسلمان جو کچھ بھی کمائیں، شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے حلال مال کمائیں۔ جب کہ حرام مال کما کر اُس سے صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی کے بارے میں مشکوٰۃ المصابیح کی حدیث نمبر 2771 میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مذکور ہے:
قَالَ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يكْسب عبد مَال حرَام فتيصدق مِنْهُ فَيُقْبَلُ مِنْهُ وَلَا يُنْفِقُ مِنْهُ فَيُبَارَكُ لَهُ فِيهِ وَلَا يَتْرُكُهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلَّا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ (کسی ناجائز طریقے سے) حرام مال کمائے اور اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں (اللہ کی جانب سے) کی برکت ہو۔ جو شخص (مرنے کے بعد) حرام مال پیچھے چھوڑ کے جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔
حرام میں مبتلا شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حرام خوری میں مبتلا ہوتا ہے، اللہ تعالی اُس کی دعا قبول نہیں فرماتے۔ اِس حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان نقل کرتے ہیں:
تُلِيَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ: ﴿يا أيُّها النّاسُ كُلُوا مِمّا في الأرْضِ حَلالا طَيِّبًا﴾ فَقامَ سَعْدُ بْنُ أبِي وقّاصٍ فَقالَ: يا رَسُولَ اللہِ! ادْعُ اللہَ أنْ يَجْعَلَنِي مُسْتَجابَ الدَّعْوَةِ. فَقالَ: یَا سَعْدُ! أطِبْ مَطْعَمَكَ تَكُنْ مُسْتَجابَ الدَّعْوَةِ، والَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إنَّ الرَّجُلَ لَيَقْذِفُ اللُّقْمَةَ الحَرامَ في جَوْفِهِ، فَما يُتَقَبَّلُ مِنهُ أرْبَعِينَ يَوْمًا، وأيُّما عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنَ السُّحْتِ والرِّبا فالنّارُ أوْلى بِهِ۔ (سورہ بقرۃ: 168، تفسیر الدر المنثور، جلال الدین السیوطی، جلد 2، ص 169)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی:
يا أَيُّها النّاسُ كُلُوا مِمّا فِي الأَرْضِ حَلالا طَيِّبًا۔ (البقرۃ: 168)
اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال پاکیزہ چیزیں ہیں، وہ کھاؤ!
تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! میرے لیے اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالی مجھے مستجاب الدعوات بنا لیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے سعد! اپنا کھانا پینا پاک (حلال) رکھو، آپ مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ مجھے اُس ذات کی قسم ہے، جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے، اس (کی عبادات) کاکوئی عمل چالیس دن تک قبول نہیں ہوتا۔ جس شخص کا جسم حرام مال اور سُود سے پَلا بڑھا ہو، اُس کے لیے (جہنم کی) آگ ہی بہتر (جگہ) ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں 1015 نمبر پر روایت کردہ حدیث موجود ہے:
أَيُّها النَّاسُ! إنَّ اللہَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إلَّا طَيِّبًا، وإنَّ اللہَ أمَرَ المُؤْمِنِينَ بما أمَرَ به المُرْسَلِينَ، فقالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: 51]، وقالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: 172]، ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلى السَّماءِ، يا رَبِّ، يا رَبِّ، ومَطْعَمُهُ حَرامٌ، ومَشْرَبُهُ حَرامٌ، ومَلْبَسُهُ حَرامٌ، وغُذِيَ بالحَرامِ، فأنَّى يُسْتَجابُ لذلكَ؟!؟
بے شک اللہ تعالی پاک ہیں اور وہ پاک مال ہی قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے مومنین کو وہی حکم دیا ہے، جو انبیاء کو دے کر بھیجا گیا ہے کہ “اے رسولو! پاک مال میں سے کھاؤ اور نیک اعمال کرو۔تم جو کچھ کرتے ہو، مَیں وہ جانتا ہوں۔ اور ایسے ہی ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! تمہیں جو پاک رزق دیا گیا ہے، اُس میں سے کھاؤ۔ پھر ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا، جو ایک طویل سفر میں ہے، جس کے بال پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہیں اور وہ مٹی سے اَٹا پڑا ہے، (وہ حج اور عمرے کے لیے سفر میں ہے) وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور پکارتا ہے: اے رب! اے رب! مگر اُس کا کھانا حرام کا ہے۔ اُس کا پینا حرام کا ہے۔ اس کا لباس حرام کا ہے۔ اور اُس کی غذا حرام (آمدن سے) ہے، تو ایسے شخص کی دعا بھلا کیسے قبول ہوگی؟!
وضاحت:
جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص کی دعا ہی قبول نہیں ہو رہی اور اس میں اللہ تعالی کی طرف سے واضح اعلان موجود ہے کہ اگر تم حرام کھانے، پینے اور لباس میں مبتلا ہو تو مَیں دعا قبول نہیں کرتا۔ ایسے میں وہ شخص کیسی عجیب بے بسی کا شکار ہوگا، جس کی عبادت کا مغز یعنی دعا ہی اعلانیہ طور پر رَد کی جا رہی ہو۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 45میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَٱسۡتَعِینُوا ن بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ۔
اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرو۔
انسان کا مال جمع کرنے کا مقصد اپنے معاملات میں آسانی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ایسے ہی جب ہم نماز ادا کرتے اور اللہ تعالی بندگی کرتے ہیں، تب ہمارا ایک مقصد اپنے مسائل کے لیے اللہ تعالی سے مدد چاہنا بھی ہوتا ہے۔ ہم اس کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ آیت میں انسان کو یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالی سے مدد کی دعا کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالی سورۃ المؤمن کی آیت 60 میں فرماتےہیں:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو، مَیں قبول کروں گا۔
اگر اللہ تعالی اپنی اِس قدر بڑی پیش کش کے بعد بھی حرام میں مبتلا کسی انسان کی دعا اعلانیہ طور پر قبول نہیں فرماتے تو یہ کس قدر سنگین معاملہ ہے۔ بلاشبہ یہ حرام میں مبتلا ہونے کی وہ نحوست ہے، جس سے انسان کی عبادات بے کار ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالی کی ناراضی کا الگ سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انسان کو دعا کے قبول نہ ہونے کا شکوہ کرنے سے پہلے اپنے اعمال اور خصوصاً آمدن کے حوالے سے سوچنا چاہیے کہ آیا وہ حلال کما رہا ہے یا حرام میں مبتلا ہے؟
حرام سے نیکی کی توفیق ختم ہو جاتی ہے:
ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال کمانے کی حرص ہی انسان کے خسارے کا سبب بنتا ہے۔ جب انسان حرام کمانا اور کھانا عادت بنا لیتا ہے تو اُس کے جسم سے ایمان کا نور ختم ہو جاتا ہے۔ دِل ویرانی محسوس کرتا ہے۔شیطان ایسے ویران دِل کو بآسانی غلط کاموں کی طرف مائل کر لیتا ہے۔جس سے چوری، ڈاکا، رشوت ایسے بے شمار گناہ وجود میں آتے ہیں۔ اِس سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ حرام میں مبتلا آدمی کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اُس کی زندگی کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اُس سے نیک اعمال توفیق چِھن جاتی ہے۔ حرام سے باہم نفرتیں اور کدُورتیں جنم لیتی ہیں۔ جس سے معاشرہ بھلائی والے مزاج سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ایسے انسان کو کامیاب قرار دیا گیا ہے، جو گناہوں کی اِس بنیاد یعنی حرص سے ہی بچ گیا ہو۔ کیوں کہ حرص ہی انسان کو حرام کمانے، کھانے اور حرام کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے، جیسے مذکورہ بالا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیت9 میں اللہ تعالی کا ارشادہے:
وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ۔
اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے اِسی حرص کی مذمت کے لیے صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6438 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمان منقول ہے:
لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلأً مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيًا أَحَبَّ إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلاَ يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ‏۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر ابنِ آدم کو سونے سے بھری ایک وادی دے دی جائے تو وہ (سونے سے بھری) دوسری وادی کی خواہش کرنے لگے گا۔ اگر اُسے دوسری وادی بھی دے دی جائے تو وہ تیسری وادی کی بھی طلب کرنے لگے گا۔ ابنِ آدم کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ ہی جس پر چاہے، رحمت فرماتا ہے۔
اِس بُری عادت سے نجات کے لیے سب سے بہترین وہی حل ہے، جسے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ یہ حدیث جامع الترمذی میں 2513 نمبر پر منقول ہے:
انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلاَ تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لاَ تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُن لوگوں کی طرف دیکھو، جو دنیاوی اعتبار سے تم سے کم تر ہوں اور اُن لوگوں کی طرف مت دیکھو، جو تم سے اوپر ہوں۔ اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اُن نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں۔
جب آدمی قناعت اور شکرگزاری اختیار کر لیتا ہے، تب وہ حرام و مشکوک چیزوں کی طرف نہیں جاتا۔ وہ حلال پر ہی قائم رہتا ہے، اگرچہ وہ کم ہو۔ دنیا کے اعتبار سے اپنے سے اوپر والے کی طرف نظریں جمانے سے حرص کی آگ جلتی ہے، جس سے ساری زندگی کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ نے جو نعمتیں دی ہوتی ہیں، اُن پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ بے شمار لوگوں کے پاس تو وہ نعمتیں بھی نہیں ہیں، جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس سے دل میں غِنا (دوسروں سے بے نیازی) پیدا ہوتا ہے، یہی حرص کی بیماری کا علاج ہے۔ بنیادی طور پر جسم میں دل ایسا عضو ہے، جو انسان کو اچھائی یا برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ خصوصی طور پر اپنے دل کی حفاظت کی جائے اور اسے اللہ کی یاد میں مصروف رکھا جائے۔
حرام کے ا ِبتلاء سے دل بیمار ہو جاتا ہے:
دل کی ایمانی صحت کے حوالے سے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے منقول مشکوٰۃ المصابیح کی حدیث نمبر 2762 میں واضح کیا گیا ہے:
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُله أَلا وَهِي الْقلب۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جان لو کہ جسم میں ایک ایسا عضو ہے، جب وہ ٹھیک ہوتا ہے تو تمام جسم درست رہتا ہے۔ اور جب وہ عضو فاسد ہو جاتا ہے تو تمام جسم فاسد ہو جاتا ہے۔ خوب سمجھ لو کہ وہ عضو دل ہے۔
جب دل درست رہتا ہے تو انسان بُرائی سے بچا رہتا ہے۔ اور وہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز کرتا ہے۔ نیک اعمال بجا لاتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نیک اعمال کا حلال غذا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جیسا کہ سورۃ المومنون کی آیت 51 میں ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۔
اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کر رہے ہو، مَیں اس سے بخوبی واقف ہوں۔
صالح اعمال کے لیے حلال غذا کی اہمیت:
چوں کہ حرام اور ناپاک چیزیں اپنے نتائج کے اعتبار سے بھیانک ہیں اور معاشرے کو برباد کرنے کا باعث ہیں اور حرام غذا انسان کے دل کو سختی اور شدید غفلت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جس سے انسان نیک اعمال سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالی نے سود اور شراب کو اسی لیے حرام قرار دیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ اور بھیانک ہیں۔ اگرچہ حرام میں مبتلا افراد کو سود اور شراب اچھے لگتے ہیں، مگر سود معیشت کے لیے زہرِقاتل ہے اور شراب اخلاق کے لیے دودھاری تلوار کی طرح خطرناک ہے۔ اسی لیے نیک اعمال سے ہمیشہ وہ اعمال مُراد ہوتے ہیں، جنہیں قرآن و حدیث نے عملِ صالح قرار دیا ہو نہ کہ ہر وہ عمل، جسے لوگ اچھا سمجھیں۔ کیوں کہ لوگوں کو تو بدعات بھی اچھی لگتی ہیں۔ چوں کہ اہلِ بدعت کے ہاں جس قدر بدعات کا اہتمام ہے، ویسی فکرمندی فرائض اور سنن و مستحبات میں نہیں ظاہر ہوتی۔ حلال غذا کے ساتھ عملِ صالح کی تاکید اور توجہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن کا باہم گہرا تعلق ہے۔یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو حلال غذا کے ساتھ نیک اعمال کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے نزدیک احترام کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں، جو محنت کر کے حلال روزی کھاتے ہیں، چاہے روکھی سوکھی ہی ہو۔