کابل

حماس و اسرائیل، اطمینان و بے قراری

حماس و اسرائیل، اطمینان و بے قراری

 

محمد افغان

اسلام اور کفر کی فوجوں کے درمیان بنیادی فرق عقیدے اور فکر کا ہے۔ عقیدہ وہ روح ہے، جو انسان کو کائنات کی سپریم طاقت سے جوڑتا ہے۔ البتہ اس کے لیے عقیدے کا پاکیزہ اور خالص ہونا ناگزیر شرط ہے۔ جب انسان اللہ تعالی سے اپنا تعلق بحال اور مستحکم کر لیتا ہے، تب اُس کے لیے اپنی ہمہ نوع سرگرمیوں کو درست سَمت رواں دواں رکھنے کے لیے ایک ایسا صاف و سیدھا راستہ مل جاتا ہے، جس سے منزل تک پہنچنا روشن سورج کی طرح یقینی ہو جاتا ہے۔ یقین کا یہ سفر بہ سہولت طے ہو سکے، اس کے لیے کائنات کی سپریم پاور اللہ تعالی نے اپنے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ السلام کے ذریعے توحید کی بنیاد اور رِسالت کی چھت فراہم کی ہے۔ دل کی بے چینی کو اطمینان بخشنے والی یہ لازوال بنیاد اور سَر کو گمراہی کی دھوپ سے پناہ میں رکھنے والی یہ پائیدار چھت ہی وہ عقیدہ و روح ہے، جن سے دل و دماغ کو معیاری زندگی کی سانسیں نصیب ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کی ذات و صفات میں کسی بھی مخلوق کو شریک ٹھہرانا ایسا گھناؤنا جرم ہے، موت سے پہلے توبہ نہ کی جائے تو یہ گناہ معاف نہیں ہو سکتا۔ شرک و اِلحاد کی مشترکہ نحوست یہ ہے کہ وہ انسان کے ذہن و قلب کو اِس قدر بدحواس و پراگندہ بنا دیتی ہے، جس کا علاج صرف درست عقیدے کا مرہم ہے۔ اسی طرح رسالت و نبوت کا اقرار و تصدیق عقیدے کا وہ ثانوی جوہر ہے، جس کا انکاریا اُس کی تسلیم و رضا میں کمی کوتاہی عمل و کردار کو راہِ راست پر نہیں آنے دیتی۔
مسلمان مجاہد اور کافر فوجی میں یہی بنیادی و جوہری فرق ہے۔ مجاہدینِ اسلام نے اللہ تعالی کی وحدانیت کے اقرار اور نبیِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کے ساتھ خود کو کائنات کے سرچشمۂ طاقت اور منبعِ راحت کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ اسی وجہ سے فلسطینی مجاہدین نے سخت حالات، جنگ کے مادی اسباب میں اسرائیل سے کمزور پوزیشن اور معاشی خودکفالتی کے غیرمضبوط نظام کے باوجود اسرائیل کی ناک خاک میں ملا دی ہے۔ جب کہ اسرائیل کو بجائے خود اپنی حیرت انگیز جنگی تیاریوں، جدید ترین اسلحے کے ذخائر اور دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی اخلاقی و مالی مدد حاصل ہے، مگر حالت یہ ہے کہ اسرائیل کے سرکردہ رہنما اپنے نقصانات پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک بڑے درجے کے افسر نے جنگی حالات کے تجزیے کی گفتگو میں روتے ہوئے بتایا:
“جنگ میں حالات ایسے تھے کہ ہمارے کئی فوجی حماس کے ایک ہی شدید حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ مَیں لاشوں کی حفاظت کی خاطر اُنہیں گاڑی میں بغیر ترتیب کے ایک دوسرے کے اوپر رکھ رہا تھا۔ حالانکہ مجھے سب لاشوں کو علیحدہ علیحدہ رکھنا چاہیے تھا، مگر (حماس کے ڈرکی وجہ سے) مجبوراً لاشیں ایک دوسرے پر رکھنا پڑی تھیں۔”
یہی افسر خود کا مواخذہ کرتے ہوئے رو پڑا کہ ‘اے خدا! مجھے معاف فرما دینا کہ مَیں لاشوں کا احترام نہیں کر سکا۔ کیوں کہ میدان میں لاشیں زیادہ تھیں اور مجھے اُنہیں گاڑی میں بھی رکھنا تھا۔’
جب ابراہیم نامی ایک بوڑھے یہودی کے فوجی بیٹے کے بعد جنگ میں شریک اُس کا پوتا بھی حماس کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا تو پوتے ‘روی الیاس’ کی تدفین کے وقت دادا ابراہیم خون کے آنسو روتے ہوئے دُہائی دے رہا تھا:
“کاش!تم نے میرے پوتے کے بدلے مجھے ہلاک کر دیا ہوتا۔ میرا ایک ہی بیٹا تھا، وہ بھی اس جنگ کی نذر ہو گیا تھا۔ اب میرے پوتے کو بھی ہمیشہ کے لیے مجھ سے دُور کر دیا گیا ہے۔ ہائے! حماس نے تو میری نسل ہی مٹا دی ہے۔ میرا تو نسب ہی برباد ہو کر رہ گیا ہے۔”
بلاشبہ اِنہی درندہ صفت یہود و نصاری کے لیے کہا گیا ہے:
ہم نے الحمد سے لے کے والناس تک
جو بھی ہے کچھ پڑھا، وہ بُھلایا نہیں
ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں سدا
ہم نے تم کو اگر خوں رُلایا نہیں
روند کر اہل ایمان کی بستیاں
کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو
یہ تو ممکن نہیں عیش سے تم رہو
اور ملّت ہماری عذابوں میں ہو!!!‏
دوسری طرف اسرائیلی اخبار ‘یدیعوت احرونوف’ نے اس بات کی تصدیق کی تھی:
‘غزہ کی پٹی میں جنگ کے لیے جانے والے فوجیوں میں سے 500 سے زیادہ فوجی مختلف نفسیاتی امراض اور صدموں کا شکار ہو چکے ہیں۔’
اسرائیلی میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق جنگ میں حماس کے جوابی حملوں میں زخموں اور دماغی امراض کا شکار ہونے والے فوجی جن اسپتالوں میں زیرِعلاج ہیں، وہ ان فوجیوں کی انتہائی شدید خراب نفسیاتی حالت کی وجہ سے اُنہیں نشہ آور ٹیکے لگاتے اور ادویات کھلاتے ہیں، تاکہ وہ سو سکیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی ذہنی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ وہ حماس کے ڈر کی وجہ سے خود کو بندوق یا دیگر طریقوں سے زخمی کر لیتے ہیں، تاکہ فوجی انتظامیہ اُنہیں جنگ پر نہ بھیج دے۔
اسرائیلی طبی ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ جنگ میں زخمی ہونے والے صہیونی فوجی شدید نفسیاتی صدموں اور امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ جنگ کے دل دہلا دینے والے انتہائی خوف ناک مناظر سے شدید پاگل پن میں مبتلا ہیں۔ اُن کے دل میں جنگ کا ڈر اس قدر شدید ہے کہ اُنہیں نیند کی حالت میں آنے والے خوابوں میں حماس کی کارروائیاں نظر آتی ہیں، جس سے وہ ہڑبڑا جاتے ہیں۔ ایسے ہی صدموں سے گزرنے والے ایک اسرائیلی فوجی نے خواب میں جنگ کے مناظر دیکھےتو شور مچاتا ہوا اُٹھ گیا اور حواس باختگی کے سبب بندوق سے اپنے ہی ساتھیوں پر فائرنگ کر دی، جس سے کئی فوجی زخمی اور موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
عبرانی ویب سائٹ ‘والا’ نے لکھا تھا کہ ‘جنگ میں شریک فوجیوں کے اہلِ خانہ حماس کو اس بات کا الزام دیتے ہیں کہ اُن کے بچے مجاہدین کے حملوں کی وجہ سے سخت دلی صدموں اور ذہنی بدامنی کا شکار ہو چکے ہیں۔’ اسرائیلی میڈیا نے ذکر کیا ہے کہ ‘ہم نے غزہ جنگ کی اپنے جانی نقصان، مستقل معذور فوجیوں اور نفسیاتی مسائل کی صورت میں ناقابلِ برداشت قیمت ادا کی ہے۔’ اسرائیل کا عسکری افرادی نقصان اِس قدر زیادہ ہے کہ فوج کے محکمۂ بحالیِ صحت نے غزہ جنگ میں نفسیاتی مریض بننے والے فوجیوں کی صحت کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے نرسوں اور نفسیاتی ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ وہ فوجیوں کی ذہنی اَبتری کو نارمل کرنے کے لیے اپنی خدمات ادا کریں گی۔ اِن ٹیموں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ غزہ جنگ کے بعد فوج میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے عوامل کا جائزہ لے کر اُن کا سدِباب کریں گی۔
دوسری طرف اسرائیلی فوج کے سابق نائب چیف آف اسٹاف ‘یائیرگولان’ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
ہمارے بہت سے بہترین نوجوان غزہ جنگ میں کوئی بھی کامیابی اور ہمارے طے کردہ جنگی اہداف میں سے کوئی ایک بھی مقصد حاصل کیے بغیر مارے جا چکے ہیں۔
یہ اُس اسرائیل کی ذہنی و قلبی اور نفسیاتی حالت ہے، جس کے حوالے سے ہَوَّا بنایا گیا ہے کہ وہ دنیا بھر کی بہترین فوج ہے۔ وہ آئرن ڈوم سسٹم کی حامل ہے۔ اُس کے پاس فلاں فلاں اسلحے کے وسیع ذخائر ہیں۔ مزید یہ کہ امریکا اب تک اس جنگ میں 244 کارگو طیاروں اور 20 دیوہیکل بحری جہازوں کے ذریعے اسرائیل کو 10 ہزار ٹن سے زیادہ جنگی سامان فراہم کر چکا ہے۔ اسرائیلی فوج میں نفسیاتی امراض اِس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ حکومت بڑی سطح پر بحالی مراکز کھول رہی ہے۔
یہاں غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ ایک طرف دنیا بھر کی ظاہری و اخلاقی اور اسلحہ فراہمی کی حمایت سے واضح محروم فلسطین ہے، جو اپنا سب کچھ قربان ہونے کے باوجود قلب و زبان سے “الحمدللہ رب العالمین” کا وِرد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی ماں باپ کا بیٹا اسرئیل کی اندھی بمباری میں شہید ہو گیا ہے تو وہ اس اندوہ ناک صدمے کے باوجود اطمینان کی حالت میں ہیں اور اللہ تعالی کی رضا پر قربان ہیں۔فلسطینیوں کے دل میں کسی طرح کی کوئی بے چینی اور بے قراری نہیں ہے۔ اس کے ذہن مکمل آسودہ حال ہیں۔ اُن کے چہروں سے رب کی آزمائش پر پورا اُترنے کے تاثرات نمایاں ہیں۔ اُن میں پاگل پن، نفسیاتی امراض اور خواب آور ادویات کے استعمال کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔
دوسری طرف وہ اسرائیل ہے، جو خود بھی بظاہر ایک طاقت یافتہ ملک ہے، جب کہ موجودہ جنگ میں اُسے کفار کی ظاہری اور کچھ مسلم ممالک کی خفیہ اخلاقی حمایت بھی حاصل ہے۔جب کہ اُسے مالی مدد کے ساتھ اسلحے کی متواتر فراہمی بھی حاصل ہے۔ اس سب کے باوجود یہودی فوجیوں کی حالتِ زار دنیا کے سامنے ہے۔اُن کے دِل جنگ کے خوف سے منتشر اور دماغ موت کے رعب سے پراگندہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا اسلحہ اور اُس کی طاقت بجائے خود اسرائیل کے لیے نِت نئے مسائل کا باعث رہے ہیں۔وہ اس جنگ میں اپنے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ کے لیے اپاہج بنا چکا ہے۔ مزید لطیفہ یہ کہ اب عام اسرائیلی شہریوں کو اپنی فوج پر کوئی اعتماد نہیں رہا ہے۔
دو فوجوں؛ حماس اور اسرائیل کے مابین ایک جنگ کے دو مختلف نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طرف اطمینان اور سکینت ہے۔ دوسری طرف بے چینی اور پاگل پن ہے۔ ایک طرف حوصلہ و بلندعزائم ہیں۔ دوسری طرف ڈر اور خودکشی ہے۔
تاریخی اور مذہبی دونوں نکتہ ہائے نظر سے اِن نتائج کے بنیادی عوامل پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی کام… چاہےوہ معاشی جدوجہد ہو یا خصوصی طور پر جنگی سرگرمیاں… وہ جب تک روح اور قلبی اطمینان سے خالی ہوں گی، اُن کے نتائج کبھی بھی توقع اور امید کے مطابق نہیں ہوں گے۔ اُن میں ہمیشہ بے قراری اور بے سکونی موجود رہے گی۔ جب کہ یہ ‘روح’ وہی توحید و رسالت کا پاکیزہ عقیدہ ہے، جو انسان کو اُس طاقت سے مِلا دیتا ہے، جو ظاہری و باطنی اور مادی و روحانی قوّتوں کی مرکز ہے۔ اسی مرکز سے فتح و شکست کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ وہیں سے اطمینان اور بے سکونی کے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔