کابل

حکمرانوں کے ظلم کا باعث

حکمرانوں کے ظلم کا باعث

 

خزیمہ یاسین

مسلمان معاشروں میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان بھلائی اور عدل و انصاف کے حوالے سے چند ایسے عوامل ہیں، جو حکمرانوں کی طرف سے عوام پر ظلم و عُدوان کا باعث بنتے ہیں۔ رعایا کی طرف سے حکمرانوں کی نازیبا حرکتوں، ناجائز سختیوں اور بے جا ٹیکسوں پر آنسو بہائے جاتے ہیں۔ دُہائیاں دی جاتی ہیں کہ حکمران بے حد ظالم اور بے مُرَوَّت ہیں۔ آوازیں بَلند کی جاتی ہیں کہ اُمرا مہنگائی، ناجائز ٹیکسوں اور لگان کےذریعے ہمارے خون پسینے کی کمائی چھین لیتے ہیں۔ اقتدار میں بیٹھے چند لوگوں کے محلات ہمارے خون سے جلنے والے چراغوں سے روشن ہیں۔ ہماری تمام صُبحیں بے نور ہیں، جب کہ حکمرانوں کی تاریک راتیں بھی دن کی طرح اُجالے میں رہتی ہیں۔
یہ سب ایک طرف، مگر عموماً مسلم معاشروں کے شہری اُن بنیادی اسباب کی جانب توجہ نہیں کرتے، جن کی وجہ سے حاکموں کے جبر و ستم کا سلسلہ جاری و ساری رہتے ہوئے طویل تر ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے حضرت پیغمبرِ اسلام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان اپنی تمام تَر اہمیت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ حضرت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ حدیثِ قدسی نقل فرماتے ہیں، جو حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ المصابیح میں3721نمبر پر موجود ہے:
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ اللہَ تَعَالَى يَقُولُ: أَنَا اللہُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا مَالِكُ الْمُلُوكِ وَمَلِكُ الْمُلُوكِ، قُلُوبُ الْمُلُوكِ فِي يَدِي، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا أَطَاعُونِي، حَوَّلْتُ قُلُوبَ مُلُوكِهِمْ عَلَيْهِمْ بِالرَّحْمَةِ وَالرَّأْفَةِ۔ وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا عَصَوْنِي حَوَّلْتُ قُلُوبَهُمْ بِالسُّخْطَةِ وَالنِّقْمَةِ۔ فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ فَلَا تَشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَى الْمُلُوكِ وَلَكِنِ اشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالذِّكْرِ وَالتَّضَرُّعِ كَيْ أَكْفِيَكُمْ ملوكَكم۔
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ مَیں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے میرے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا جب میرے (اکثر) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو مَیں اُن کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں۔ جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو مَیں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بادشاہ رعایا کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس لیے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو اُن بادشاہوں کے لیے بددُعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع و زاری کر کے خود کو (میرے) ذکر میں مشغول کرو، تاکہ مَیں تمہیں تمہارے بادشاہوں کے شر سے بچاؤں۔’
مذکورہ حدیث کو سمجھا جائے تو حکمرانوں کی طرف سے عوام کے ساتھ جبر و ستم کے معاملے کی بنیاد واضح ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق کی بھلائی چاہتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ رعایا تو اپنی ذات میں انصاف پسند ہو، اپنے معاملات مکمل دیانت داری سے انجام دیتی ہو اور توحید و رسالت کی مکمل تابع داری کرتی ہو، اس کے باوجود وہ ظالم حکمرانوں کے سائے میں زندگی گزار رہی ہو،یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ وہ بھلائی چاہتے والوں کو بھلائی ہی عطا فرماتا ہے، مگر یہ کہ بھلائی چاہنے والے اوّلاً خود سے بھلائی چاہیں، یعنی اسلام کی اطاعت کریں۔ اس بات کو مزید آسان اور واضح کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کنزالعمال میں موجود ایک روایت ذکر کر دی جائے تو وہ برمحل ہوگی:
إِنَّ اللہَ تَعَالَى إِذَا غَضِبَ عَلَى أُمَّةٍ وَلَمْ يُنْزِلْ بِهَا عَذَابَ خَسْفٍ وَلَا مَسْخٍ، غَلَتْ أَسْعَارُهَا وَيَحْبِسُ عَنْهَا أَمْطَارَهَا وَيَلِي عَلَيْهَا أَشْرَارُهَا۔
جب اللہ تعالی کسی قوم سے ناراض ہو کر غضب ناک ہوتا ہے تو اُس پر بندر و خنزیر کی طرح صورتیں مسخ کرنے کے عذاب بھیجنے کے بجائے اُن میں مہنگائی پیدا کر دیتا ہے۔ جس سے اُن کی قوتِ خرید شدید متاثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور اُن پر ایسے وقت میں بارشیں نازل کرنا روک دیتا ہے،جب کہ قوم کو اپنے کھیتوں کی آب یاری اور موسم کی صفائی کے لیے بارشوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اُس قوم پر شریر اور بُرے ترین لوگوں کو حکمران بنا دیا جاتا ہے، جو اُن پر ظلم و جَور کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ اُن میں مہنگائی پیدا کرتے ہیں۔ اُن کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔
جب کہ اِس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کے غضب اور ناراضی کی وجہ لوگوں کے بُرے اعمال ہوتے ہیں۔ ابتدائے اسلام سے آج تک مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ حکمرانوں کے اچھے اور بُرے رویّے میں رعایا کے نیک اور نازیبا اعمال کا بنیادی دخل رہا ہے۔ بلاشبہ اِس معاملے میں ظالم حکمرانوں کے اپنے اعمال سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ رعایا کے بُرے اعمال کے سبب عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ یقیناً یہ حکمران بروز حشر دنیا میں کاشت کی ہوئی اپنی بُری یا اچھی کھیتی کا حساب دیں گے۔ البتہ یہاں جو بنیادی نکتہ زیرِنظر ہے، وہ رعایا کی نیک عملی اور خالص دین داری ہے۔
اللہ تعالی کا قانون فطری اور صاف و شفاف ہے۔ جو شخص بھی دین داری اختیار کرے گا، وہ اپنی حد تک اللہ تعالی کی مدد و نصرت کا مستحق بن جائے گا۔ البتہ اگر کامل معاشرہ اور تمام اُمّت اجتماعی بھلائی چاہے تو اِس کے لیے مکمل قوم کو اجتماعی طور پر راہِ ہدایت اور صراطِ مستقیم اپنانا ہوگا۔ عوام کو اوّلاً اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ ظلم سے باز آنا ہوگا۔ اُسے گناہوں سے رُکنا ہوگا۔ نمازوں کی پابندی کرنا ہوگی۔انصاف اور بھلائی کے اعمال انجام دینا ہوں گے۔یہی ایک راستہ ہے، جس پر چلتے ہوئے معاشرے کو ہر طرح کے ظلم و ستم سمیت ظالم حکمرانوں سے نجات مل سکتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف ظالم حکمرانوں کو بھی اپنے رویّے پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ حکومت کا معاملہ بے حد نازک اور سخت ہے۔ اگر ایک طرف نیک و عادل حکمران کو قیامت کے دن اللہ تعالی کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا تو دوسری طرف بَد اور ظالم حکمران پر جنت بھی حرام کر دی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مَعقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں مذکور حدیث نمبر 4729 میں خبردار کیا گیا ہے:
مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللہُ رَعِیَّۃً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللہُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نےکہتے ہیں: مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: “جس کو اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رعایا کا ذمہ دار بنایا، پھر اُس حاکم کی موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ خیانت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حکام و اُمَرا کی طرف سے عوام کو دھوکا دینا اور ان کے حقوق ضائع کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ ایسے حاکم پر جنت حرام ہے۔ اگر کوئی حاکم و امیر چاہتا ہے کہ اسے جنت میں داخلہ مل جائے تو وہ اپنی رعایا کے مکمل حقوق ادا کرے۔ عوام پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔ ان سے ناانصافی نہ کرے۔ ان پر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالے۔ انہیں ڈاکوؤں اور لٹیروں سے تحفظ فراہم کرے۔ جو حاکم اپنی رعایا کی بہتری کے لیے مخلصانہ کوشش نہیں کرتے، عوام کے ساتھ خیرخواہی کرنے کے بجائے انہیں دھوکا دیتے ہیں۔ پھر اسی حالت میں توبہ کیے بغیر دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ان کے لیے جنت حرام ہے۔ اس لیے کہ وہ ظالم حاکم قیامت کے دن اتنے زیادہ بندوں کے حقوق کہاں سے ادا کرے گا؟ اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف سے بندوں کو راضی نہیں کرے گا کہ ان کے حقوق اپنی طرف سے ادا کر دے اور انہیں دھوکا دینے والے اور ظالم و جابر حکمرانوں کو جنت میں بھیج دے۔ درحقیقت اللہ تعالی ظالم حکمرانوں کو عوام کے حقوق ضائع کرنے کی وجہ سے جہنم میں پھینکے گا۔
مذکورہ احادیث کی بنیاد پر عوام اور حکمران، دونوں کو اپنی اپنی ذات میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال و تحفظ کرنا چاہیے۔ بروز قیامت ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دِہ ہوگا۔