کابل

دوحہ معاہدہ: آزادی کی منفرد قومی دستاویز

دوحہ معاہدہ: آزادی کی منفرد قومی دستاویز

 

تحریر: پروفیسر امین اللہ وردگ
آج دوحہ میں امارت اسلامیہ اور امریکی جارحیت پسندوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی چوتھی سالگرہ ہے، جس کی بنیاد پر غیر ملکی افواج وطن عزیز سے نکل گئیں اور افغانوں کو دوسری بار آزادی ملی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عموماً ہر جنگ کے بعد فریقین کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی معاہدہ ضرور ہوتا ہے اور دنیا کی ہر قوم نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے معاہدے ضرور کیے ہیں۔ جس طرح میدانِ جنگ میں ایک فریق کمزور اور دوسرا غالب ہوتا ہے، اسی طرح معاہدوں میں بھی ایک فریق فاتح اور دوسرا فریق نقصان اٹھاتا ہے۔
مثلا اگر ہم اپنے ملک کے بڑے معاہدوں پر نظر ڈالیں تو ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ شاہ شجاع اور انگریزوں کے درمیان 1838 میں لاہور میں ہونے والا معاہدہ واضح طور پر ملک کو فروخت کی دستاویز پر مبنی تھا۔ اسی طرح 1878 میں امیر یعقوب خان اور انگریز سامراج کے درمیان ننگرہار گندمک کا معاہدہ بھی ملک کا ایک حصہ بیچنے پر منتج تھا، بعد ازاں کابل میں امیر عبدالرحمن خان اور ڈیورنڈ فرنگی کے درمیان 1893 کا معاہدہ بھی ملک کا نصف حصہ ان کے سپرد کرنا تھا، اسی طرح امان اللہ خان اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک اور معاہدہ بھی وطن نیلام کرنے کا مظہر تھا۔
نیز 1988 میں پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان جنیوا معاہدہ ہوا جو درحقیقت سوویت افواج کے انخلاء کے بعد مجاہدین کو فروخت کرنے کا سمجھوتہ تھا، اس کے بعد 2002 میں جرمنی کے شہر بن میں ہونے والا معاہدہ دراصل چند ضمیر فروش افغانوں کا صلیبی اتحاد سے دوستی کا سمجھوتہ تھا، لیکن ان تمام معاہدوں کے برعکس دوحہ معاہدہ وہ واحد معاہدہ ہے جو افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلاء اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی ضمانت دیتا ہے، اس طرح افغانوں کو بڑی عزت، فخر اور آزادی حاصل ہوئی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ جب بھی افغان عوام نے کسی غدار، جھوٹے اور غلام کی قیادت میں جدوجہد کی ہے انہیں دھوکہ دیا گیا ہے، پھر ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور انہیں پہلے سے زیادہ ذلت، رسوائی اور بدبختی کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن جب افغانوں نے سچی اور مخلص قیادت کی پیروی کی ہے، انہیں بے پناہ فوائد اور کامیابی ملی ہے۔
لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرویس خان نیکہ، احمد شاہ بابا اور ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ واقعی حقیقی رہنما تھے جن کی قیادت میں افغانوں نے بہت بڑے اعزاز حاصل کئے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اور ہماری آنے والی نسل اپنے قابل فخر ہیروز کے راستے پر چلیں اور غلاموں کی تاریخ سے سبق حاصل کریں۔
مختصر یہ کہ آج کا دن ہمیں یہ سبق دہراتا ہے کہ اگر قربانی دینا جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے تو مذاکرات میں بھی ذہانت، تدبیر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوحہ معاہدہ بھی درحقیقت ان شرائط کی بدولت افغان قوم کی کامیابی پر منتج ہوا، اللہ تعالی وطن عزیز کو پھر کسی بیرونی جارحیت اور مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ امین