کابل

دوحہ معاہدے کی چوتھی سالگرہ اور چند حقائق

دوحہ معاہدے کی چوتھی سالگرہ اور چند حقائق

 

تحریر: سیف العادل احرار
امریکہ نے نیٹو سمیت افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل جنگ لڑی اور 20 برس تک برسرپیکار رہنے کے بعد اس نیتجہ پر پہنچا کہ یہ جنگ جیت نہیں سکتا، اسی بنیاد پر ٹرمپ انتظامیہ نے دوحہ میں امارت اسلامیہ کے حکام کے ساتھ 2018 میں مذاکرات کا آغاز کیا، 18 ماہ کے دوران ہونے والے مذاکرات کے بعد فریقین کسی حتمی نتیجے پر پہنچ گئے، مذاکرات کے آغاز میں امریکی حکام نے امارت اسلامیہ کے رہنماوں سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، جواب ملا کہ جارحیت کا خاتمہ اور ملک کی آزادی، امارت اسلامیہ کے رہنماوں نے امریکی حکام سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، جواب دیا کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی، ان دو نکات پر مذاکرات سات مرحلوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور 29 فروری 2020 کو دوحہ میں امریکہ اور امارت اسلامیہ کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔

دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کا انخلا شروع ہوا، معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہونا تھا جس کے لئے دس دن کے اندر پانچ ہزار مجاہدین اور ایک ہزار افغان اہل کاروں کی رہائی کا تبادلہ کرنا تھا تاہم کابل انتظامیہ کی شدید مخالفت سے دس دن کا یہ مرحلہ چھ ماہ میں مکمل ہوا جس کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے لیکن اس میں بھی کابل انتظامیہ نے روڑے اٹکانے کی بھرپور کوشش کی جس کے باعث امارت اسلامیہ کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ کابل انتظامیہ مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے، اس لئے پہلے مرحلے میں دو سو اضلاع کو فتح کیا گیا اور دوسرے مرحلے میں صوبوں کو فتح کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور 10 دن میں پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا اور 15 اگست 2021 کو مجاہدین فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوکر اپنے طویل، صبرآزما اور تاریخ ساز معرکے میں سرخرو ہوگئے۔

31 اگست 2021 کو بگرام فوجی اڈے سے آخری امریکی فوجی نکل کر یوں بیس سالہ جارحیت کا خاتمہ ہوا جو اللہ تعالی کی مدد، لاکھوں افغان عوام کی لازوال قربانیوں اور امارت اسلامیہ کی مدبرانہ پالیسیوں کی بدولت یہ کھٹن سفر کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا اور یہ اسلامی ملک آزاد ہوا۔

آج دوحہ معاہدے کے چار سال مکمل ہوئے، اس موقع پر امارت اسلامیہ کے ترجمان مولوی ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکیوں کے جانی و مالی نقصانات اور طویل جنگ نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ امارت اسلامیہ سے مذاکرات کریں۔

ان کے مطابق امریکہ نے دوحہ معاہدے کے بعد 1700 مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں جو اس کے ساتھ شیئر کی گئیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دوحہ معاہدے کے بعد نئی اسلامی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے، افغانستان کی مدد کریں گے، اس ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور پابندیوں کو ہٹا دیا جائے گا، لیکن ان کے یہ وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔

امارت اسلامیہ کے ترجمان کے مطابق سابقہ کابل انتظامیہ نے دوحہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔

دوحہ معاہدے کے چار سال بعد امارت اسلامیہ نے پورے ملک پر مرکزی حکومت کی رٹ قائم کی، مثالی امن کے ساتھ تمام بحرانوں کا خاتمہ کر دیا، ترقیاتی کاموں کے بڑے منصوبے شروع کئے گئے، کرپشن کا تصور ختم کیا گیا، منشیات کی پیداوار کا خاتمہ یقینی بنایا اور منشیات کے لاکھوں عادی افراد کا علاج و معالجہ شروع کیا گیا، ہزاروں بھکاریوں کو شہریوں سے اٹھاکر انہیں ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا، ڈیموں، سڑکوں اور ریلوے کے شعبوں میں تاریخی اقدامات اٹھائے گئے، افغان کرنسی افغانی کی قدر میں استحکام لایا، مہنگائی اور غربت پر قابو پانے کے لئے ایک جامع اور کامیاب پالیسی اختیار کی گئی جس کے مثبت اثرات نمودار ہوئے، اب عالمی ادارے اور پڑوسی ممالک اس مثبت پیشرفت کا اعتراف کررہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ جنگ زدہ ملک بہت جلد خطے میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرے گا۔ ان شاء اللہ