کابل

دوحہ کانفرنس اور چند حقائق

دوحہ کانفرنس اور چند حقائق

 

تحریر: سیف العادل احرار
گزشتہ روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کے تحت افغانستان کی صورتحال سے متعلق دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں بیس سے زائد ممالک کے خصوصی نمائندوں نے شرکت کی، اس کانفرنس میں امارت اسلامیہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی تاہم امارت اسلامیہ نے اس میں نمائشی شرکت کرنے کے بجائے معنی شرکت کے لئے دو شرائط پیش کی تھیں اور اقوام متحدہ کو ایک خط بھیجا تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ان شرائط سے متعلق مثبت جواب نہیں دیا جس پر امارت اسلامیہ کی وزارت خارجہ نے اس کانفرنس میں اپنی شرکت کو غیر مفید قرار دیکر معذرت کی۔

دوحہ کانفرنس سے جو توقعات وابستہ تھیں امارت اسلامیہ کی عدم شرکت کے بعد وہ ادھوری رہ گئیں، اس کانفرنس میں چین، روس اور ایران نے واضح طور پر امریکہ اور مغرب سے الگ موقف اختیار کیا، چین نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے، امارت اسلامیہ کے چند اعلی حکام پر یک طرفہ پابندیوں کو ہٹانے اور افغانستان بینک کے منجمد اثاثوں کو بحال کرنے پر زور دیا، کانفرنس میں شریک مندوبین کے موقف میں اختلاف نظر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ افغانستان سے متعلق دنیا ایک پیج پر نہیں ہے اور نہ ہی عالمی برداری ایک موقف پر متفق ہے۔

افغانستان میں نصف صدی کے بعد جو امن آیا ہے یا مرکزی حکومت کی رٹ قائم ہوئی ہے، اس اہم پہلو کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور مغرب کی جانب سے حقوق نسواں، انسانی حقوق کے تحفظ اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا ایجنڈا نئی اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے اور افغانستان سے متعلق ہر اسٹیج پر یہ موقف دہرایا جاتا ہے، اس حوالے سے چند گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ڈھنگ رچایا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب فلسطین میں سرعام نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کے قتل عام جاری ہے، رہائشی مقامات، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، سردست اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری خونریز جنگ کے خاتمے کے لئے کردار اد اکرے، وہاں پر امریکہ اور مغرب کی آشیرباد سے اسرائیل کی ننگی جارحیت، سفاکیت اور نہتے فلسطینی شہریوں کی نسل کشی بند کرانے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ پہلے ہی بے نقاب ہوچکا ہے، اس کا چہرہ ہم نے گوانتانامو اور بگرام جیلوں میں مظلوم قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہوئے دیکھا، اس وقت اسے انسانی حقوق کیوں یاد نہیں تھے۔

دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم نہیں ہے، امریکہ اور مغرب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کا قیام ضروری ہے، وسیع البنیاد حکومت سے مراد کس طرح نظام ہے، اس حوالے سے اب تک انہوں نے کوئی آئیڈیا پیش نہیں کیا ہے، اگر وسیع البنیاد حکومت سے مراد اس ملک میں آباد تمام اقوام کی نمائندگی ہے تو یہ حق تو سب کو حاصل ہے، اس حکومت میں تمام اقوام کی پوری نمائندگی موجود ہے، وزرارتوں اور اعلی عہدوں پر تعیناتی سے لیکر نچلی سطح کی ملازمتوں تک بلا امتیاز سب کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنے ملک کے لئے خدمات انجام دیں، جب کہ اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے جس میں کسی اور ملک کو مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے، دوحہ معاہدے میں بھی یہ بات درج ہے کہ امریکہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا، اب حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی شرائط رکھنا نہ صرف دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی ہے۔

تسیرا مسئلہ حقوق نسواں اور خواتین کی تعلیم کا ہے، حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس کے دوران چند محدود علاقوں میں لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی تھیں جب کہ اب وہ پورے ملک میں تعلیم حاصل کررہی ہیں، اس وقت وزارت تعلیم اور صحت میں 2 لاکھ سے زائد خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں، البتہ یہ امریکہ اور مغرب کے معیار کے مطابق نہیں ہیں اس لئے وہ اس پیشرفت کو نظرانداز کررہے ہیں، افغانستان ایک اسلامی معاشرہ ہے، اس کی اپنی ایک تہذیب اور کلچر ہے جس کو ملحوظ نظر رکھ کر ایک ماحول بنانے کی ضرورت ہے، امارت اسلامیہ کو درپیش مسائل اور مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے، باہر سے اس پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا دانمشندی ہے اور نہ ہی قابل عمل ہے، اس حوالے سے امارت اسلامیہ کو مزید وقت دینے کی ضرورت ہے اور حالیہ دو برس میں جو پیشرفت ہوئی ہے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

افغانستان کے اسلامی معاشرے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ لڑکیاں سروں سے دوپٹے اتار کر تعلیم حاصل کریں اور نیم برہنہ ہوکر ملازمت کریں، اس کی ہمارا دین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اس کا متحمل ہوسکتا ہے، جب ہم نے امریکہ اور مغرب سے مطالبہ نہیں کیا ہے کہ وہ آزادی حقوق نسواں کے نام پر خواتین کا استحصال بند کریں تو انہیں بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خواتین کی آزادی اور انسانی حقوق کے خوشنما نعروں کی آڑ میں ہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں یا اپنی تہذیب ہم پر مسلط کریں۔ عالمی برداری کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی تہذیب، اقدار اور روایات کا احترام کرے اور اپنا ایجنڈا اس پر مسلط کرنے سے اجتناب کرے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عالیقدر امیرالمومنین حفظہ اللہ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے چھ دفعات پر مشتمل ایک جامع حکم نامہ جاری کیا جس کے اثرات معاشرے کی تمام خواتین پر مرتب ہورہے ہیں، اس کا اقوام متحدہ نے خیرمقدم کیا اور نہ ہی مغرب نے اس کی ستائش کی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر دہرا معیار اپنایا جاتا ہے اور ان کے نام کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے سابقہ دور میں چند مخصوص خواتین کو پارلیمنٹ، میڈیا اور سرکاری محکموں میں پرکشش مراعات کے ساتھ تعینات کرکے بڑا شور مچایا گیا کہ افغانستان میں خواتین کو ان کے حقوق دیئے گئے ہیں، حالانکہ یہ پانچ فیصد خواتین پورے ملک کی خواتین کی نمائندگی کا حق رکھتی ہیں اور نہ ان کی مراعات سے تمام خواتین کے بنیادی مسائل حل ہوتے ہیں، چند سو خواتین کو تو اہم حکومتی اداروں میں مراعات سے نوازا گیا لیکن دوسری جانب ہزاروں خواتین امریکی فضائی حملوں کا نشانہ بن کر شہید، زخمی اور بیوہ ہوگئیں، کتنے ہزار معصوم بچے شہید، زخمی اور یتیم ہوگئے، ان کے بارے میں اب تک کسی نے آواز اٹھائی ہے۔

افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے، یہاں پر اب ایک منظم، مستحکم اور متحد مرکزی حکومت قائم ہے، جو عالمی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے، اس ملک میں اب ان لوگوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے جنہوں نے قومی دولت کو بے دردی سے لوٹا اور ملک کو بحرانوں میں دھکیلا، اللہ کے فضل سے طویل بحرانوں کے بعد اب وطن عزیز میں مثالی امن قائم ہوا ہے، ملک کی ترقی و تعمیر نو کے حوالے سے تیزی سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور اس کے اپنے قوانین اور ثقافت ہیں، امید ہے کہ دنیا بھی اس کا احترام کرے گی۔