کابل

دوحہ کانفرنس: باہمی خیالات کے تبادلے کی ایک رسمی نشست

دوحہ کانفرنس: باہمی خیالات کے تبادلے کی ایک رسمی نشست

تبصرہ: الامارہ اردو
دوحہ میں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت 18 ممالک کے نمائندوں کا دو روزہ اجلاس ہوا، لیکن واحد ذمہ دار فریق کی حیثیت سے افغان حکومت کے کسی نمائندے نے اس میں شرکت نہیں کی۔ وزارت خارجہ نے ایک اعلامیے کے ذریعے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی دو وجوہات بتائی تھیں۔ پہلی یہ کہ امارت اسلامیہ کو افغانستان کی جانب سے واحد ذمہ دار فریق کی حیثیت سے شریک ہوگی، دوسری یہ کہ کانفرنس میں افغان وفد اور اقوام متحدہ کے درمیان اعلیٰ سطح پر تمام امور پر واضح بات چیت ہوگی۔ ان دو اہم وجوہات کا کوئی مثبت جواب نہ دینے کے باعث افغان حکومت نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ دنیا کا ہر نظام اپنے ملک اور عوام کے مفادات کے لیے سوچتا ہے اور اسی سوچ اور پالیسی کی بنیاد پر اپنی حکومت چلاتا ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے افغان عوام کو ان کا مقبول نظام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے افغان سرزمین پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے اور دن بدن نظام کی بنیادیں مضبوط ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ خطے کے ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط ہیں اور مزید استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امارت اسلامیہ نے عالمی برادری کی جانب سے مسلسل چیلنجز کے باوجود یہ سیاسی ترقی کا یہ سفر طے کیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود اب بھی افغانستان کے بارے میں غلط تصویر پیش کی جا رہی ہے، بے چینی اور خطرے و خوف کا احساس پیدا کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں چار عشروں کے بعد مثالی امن و امان قائم ہوا ہے۔ ڈھائی سالوں میں افغانستان سے کسی ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوا۔ منشیات کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے گئے، منشیات کی کاشت کی شرح صفر اور سمگلنگ کے خلاف فوری جنگ شروع کر دی گئی۔ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا گیا اور عدالتوں کے دروازے بغیر کسی تفریق کے تمام افغانوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ تمام باشندوں کو ان کے حقوق پہنچ رہے ہیں، معاشی طور پر ملک مستحکم ہو رہا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو ایک ذمہ دار حکومت کی حیثیت سے دوحہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتی۔ اقوام متحدہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گذشتہ 20 سالوں کے ناکام تجربات کو دہرانے سے گریز کرتی اور یک طرفہ مسلط کردہ فیصلوں، الزامات اور دباؤ کی بجائے امارت اسلامیہ کے ساتھ حقیقت پسندانہ اور عملی رویہ اپنایا جاتا تو دو طرفہ تعلقات میں بھی پیش رفت ہوتی۔ اب جب کہ یہ کانفرنس افغان حکومت کے نمائندے کی شرکت کے بغیر ہوئی، اس میں جو بھی فیصلے کیے جائیں کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کیوں کہ ایک تو کانفرنس میں اس قضیے کا اہم فریق ہی شریک نہیں ہوا دوسرا یہ کہ کسی بھی نشست کا ایجنڈا، تشکیل اور گفتگو مکمل طور پر واضح نہ ہو، آپس میں خیالات کے تبادلے کے علاوہ کچھ نہیں۔ سیاسی طور پر امارت اسلامیہ کا یہ اسٹینڈ قابل تعریف ہے۔ امارت اسلامیہ نے دنیا کو دکھایا کہ وہ اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔
اس فیصلے سے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا کہ امارت اسلامیہ ایک آزاد و خود مختار حکومت کی حیثیت سے غیر حقیقت پسندانہ اقدامات کی تصدیق کر کے آلہ کار نہیں بننا چاہتی۔
عوام سے بھی یہی امید ہے کہ سازشی عناصر کے پروپیگنڈوں کو نظر انداز کرکے اپنی معاشی ترقیاتی سفر کی کامیابی کے لیے حکومت کے دست و بازو بنیں گے۔