کابل

دوحہ کانفرنس میں امارت اسلامیہ کی عدم شرکت کی وجوہات

دوحہ کانفرنس میں امارت اسلامیہ کی عدم شرکت کی وجوہات

 

کابل۔ (خصوصی رپورٹ)
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کے تحت افغانستان سے متعلق دو روزہ کانفرنس اتوار کو شروع ہوئی جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوٹیرس کی سربراہی میں 20 ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے، اس اجلاس میں امارت اسلامیہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی تاہم امارت اسلامیہ کی وزارت خارجہ نے اس میں عدم شرکت کے حوالے سے اپنا موقف واضح کر دیا جس کے مطابق گذشتہ ڈھائی سال سے امارت اسلامیہ افغانستان کی سیاسی، انتظامی، سکیورٹی، معاشی اور سماجی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، دوسری جانب خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ، مغربی ممالک اور خصوصا امریکہ کے ساتھ کئی چینلز کے ذریعے یک طرفہ اور غیر قانونی پابندیوں، بلیک لسٹ، جائزہ لسٹوں اور افغانستان بینک کے ذخائر کے اجرا پر باقاعدہ بات چیت کی ہے۔

امارت اسلامیہ کا خیال ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گوتیرش کی سربراہی میں افغانستان کے لیے کئی ممالک کے خصوصی نمائندوں کی کانفرنس اختلافی نکات پر نتیجہ خیز بات چیت کرنے کا ایک اور اچھا موقع تھا۔

بیان کے مطابق وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ پر واضح کیا ہے کہ اگر امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے واحد ذمہ دار نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کرتی ہے اور دوحہ اجلاس میں افغان وفد اور اقوام متحدہ کے درمیان اعلی سطح پر واضح بات چیت ہو تو کانفرنس میں شرکت مفید ہوگی، لیکن اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے امارت اسلامیہ کی جانب سے شرکت نتیجہ خیز نہیں سمجھی گئی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر اقوام متحدہ موجودہ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بعض قوتوں کے زیر اثر نہ رہے، دباؤ میں نہ آئے اور اس نقطے پر غور کرے کہ افغانستان کا موجودہ نظام گذشتہ 20 سالوں کی طرح کسی کے زیر اثر نہیں ہے، تو امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کا امکان ہے۔

امارت اسلامیہ اور خطے کے ممالک کے درمیان گذشتہ ڈھائی سال کے تعلقات نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر گذشتہ 20 سالوں کے ناکام تجربات سے گریز کیا جائے۔ یک طرفہ جبری فیصلوں، الزامات اور دباؤ کی بجائے حقیقت پسندانہ اور عملی انداز اپنایا جائے تو دیگر فریقین کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دو وجوہات کی بنیاد پر امارت اسلامیہ کی عدم شرکت افغانستان اور اس کی حکومت کے لئے مفید ہے جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کے حکام کو دوحہ کانفرنس میں دنیا کے لیے ایک جائز اور قبول شدہ حکومت کے نمائندوں کے طور پر شرکت ضروری ہے، نہ کہ اقوام متحدہ اور بعض ممالک کی بلیک لسٹ میں موجود ایک گروپ کے طور پر جو افغان عوام کی نمائندہ حکومت کا حق ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری باعث تشویش ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں ایک خصوصی ایلچی کی تقرری کی سفارش کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جس کی امارت اسلامیہ نے واضح طور پر مخالفت کی ہے جب کہ چین اور روس نے بھی اس قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا اور ایران نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اس قسم کی تعیناتی کو افغانستان کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ مئی 2023 میں بھی اقوام متحدہ نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں امارت اسلامیہ کو مدعو نہیں کیا گیا تھا اسی وجہ سے اس کانفرنس کے نتائج برآمد نہیں ہوئے، اسی بنیاد پر اس بار یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اس کانفرنس میں امارت اسلامیہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے تاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ چونکہ یہ اجلاس افغانستان سے متعلق ہے تو ضروری ہے کہ اس میں امارت اسلامیہ کے موقف کو سمجھ کر اس کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔

بدقسمتی سے افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جو انتظامیہ مسلط تھی وہ براہ راست امریکی جارحیت کے زیراثر تھی، امریکہ اور اقوام متحدہ نے اب تک اس بات کا ادراک نہیں کیا ہے کہ اب افغانستان میں ایک خودمختار حکومت قائم ہے جو کسی بیرونی قوت کی فرمائش اور شرائط کو قبول کرنے کے لئے کبھی بھی جھکنے کی پالیسی اختیار نہیں کرے گی۔

یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ جینوا، بون اور دوحہ اجتماعات کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں، اب بھی یہی توقع ہے کہ اس کانفرنس کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے، کیونکہ دوحہ اجلاس کے پہلے روز اقوام متحدہ اور 18 ممالک کے نمائندوں کے درمیان ایک نشست ہوگی جس میں افغانستان کے مسائل پر وہ آپس میں بحث اور تبادلہ خیال کریں گے اور اس کے نتیجے میں وہ جن نکات پر اتفاق کریں گے، وہ آگلے روز امارت اسلامیہ کے ہاتھ تھمائیں گے، ظاہر یہ ہے کہ یہ افغان حکومت کے لئے قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی یہ سابقہ انتظامیہ ہے جو بیرونی قوتوں کے اشاروں پر چلتی ہے، اسی لئے امارت اسلامیہ نے اس میں شرکت سے یکسر انکار کر دیا ہے جس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ یا دیگر ممالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل اور اس کے نظام کے تعین سے متعلق کوئی فارمیٹ پیش کریں، افغانستان ایک مستقل ملک ہے اور امارت اسلامیہ اس کی خودمختار نمائندہ حکومت ہے جس پر باہر سے نظام مسلط کرنا نہ صرف غیرمنصفانہ اقدام ہوگا بلکہ یہ کوئی کامیاب تجربہ بھی نہیں ہے۔

پہلے بھی اس طرح امارت اسلامیہ کی غیر موجودگی میں اجلاس ہوا جس نے ایک اعلامیہ جاری کیا لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، اس بار تو یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اس کانفرنس میں امارت اسلامیہ کی موجودگی ضروری ہے لیکن امارت اسلامیہ کی موجودگی بحیثیت نمائندہ حکومت ضروری ہے، اس معنی خیز شرکت کے بغیر اس کانفرنس کی کوئی افادیت نہیں ہے، کیونکہ سابقہ کانفرنس کے بعد امارت اسلامیہ اور خطے کے مختلف ممالک کے درمیان تعلقات میں وسعت آئی ہے، چین اور آذربائیجان نے کابل میں باضابطہ طور پر سفیر تعینات کئے ہیں اور امارت اسلامیہ نے بھی مختلف ممالک میں اپنے سفیر تعینات کئے ہیں جو اہم پیشرفت ہے۔

اس کانفرنس میں امارت اسلامیہ نے نمائشی شرکت سے انکار کرکے نہ صرف اپنی خودمختاری ثابت کردی بلکہ ایک بار پھر دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ وہ کسی کے دباو میں نہیں آئے گی اور نہ ہی قومی خودمختاری اور ملکی مفادات کے خلاف کسی کی فرمائش قبول کرے گی، امارت اسلامیہ نے دو دہائیوں کے دوران عملی طور پر یہ ثابت کیا ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

دوحہ کانفرنس افغانستان، خطے اور دنیا کے لیے افغانستان اور خطے کے استحکام اور مستقبل پر تعمیری اور نتیجہ خیز گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع تھا لیکن بدقسمتی سے منتظمین کے غیر حقیقت پسندانہ فیصلوں کی وجہ سے وہ امارت اسلامیہ کی شرکت کی ضمانت نہیں دے سکے جو کہ ملک کا موجودہ حکمران نظام ہے اور جس کے ساتھ تقریباً پوری دنیا کا رسمی یا غیر رسمی رابطہ ہے، اس کانفرنس میں جس کا اہم موضوع افغانستان تھا، امارت اسلامیہ کی شرکت کے بغیر اس کانفرنس سے متوقع نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔