کابل

دیرپا تعلقات کے لئے مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے

دیرپا تعلقات کے لئے مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے

 

رپورٹ: سیف العادل احرار
چند روز قبل ایک دوسرے پر حملوں کے بعد افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی، دونوں برادر اسلامی ممالک نے تعلقات کی بحالی کے لئے سفارتی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ روز کابل میں امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے پاکستان میں افغانستان کے سفیر مولوی سردار احمد شکیب نے ملاقات کی اور کابل- اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کے بعد تعلقات میں تازہ ترین پیش رفت سے انہیں آگاہ کیا اور اپنی رپورٹ پیش کردی۔

پاکستان میں افغان سفیر نے وزیرخارجہ کو پاکستانی حکام کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقاتوں اور کشیدگی کم کرنے اور تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کے لئے حالیہ پیش رفت سے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ جس پر وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اسلام آباد میں افغان سفیر کو دونوں ممالک کی صورتحال اور تعلقات کے حوالے سے ضروری ہدایات دیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں افغان سفیر نے پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان آصف درانی سے ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماوں نے دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل پر تبادلہ خیال کیا تھا اور اس امر پر زور دیا تھا کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے سفارتی کوششوں کو تیز کیا جائے گا۔

امارت اسلامیہ کی سرکاری پالیسی یہ ہے کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ اور اچھے تعلقات کی خواہاں ہے، امارت اسلامیہ کے وزیر خارجہ سمیت دیگر حکام نے متعدد بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان نے تاریخ میں کبھی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی کسی اور کو اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت دی ہے، اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک صدی قبل انگریز نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد تین بار افغانستان پر حملے کئے، اس کے بعد سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی اور نائن الیون کے بعد امریکہ نے نیٹو سمیت افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنایا، ان تینوں سپرپاورز کی فوجی مداخلت اور جارحیت کے خلاف افغان عوام نے اپنی سرزمین کا عظیم قربانیوں کے ساتھ دفاع کیا اور جارحیت پسندوں کو منہ توڑ جواب دیا حالانکہ افغان عوام نے کبھی ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور نہ ہی افغان سرزمین سے انہیں کوئی نقصان پہنچا اس کے باوجود افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دیگر ممالک افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بناتے ہیں۔

45 برس کے بعد اب افغانستان بحرانوں سے نکل آیا ہے اور اس میں امن قائم ہوا ہے، افغان عوام جنگ سے نفرت کرتے ہیں، وہ اس جنگ کی بھاری قیمت چکانے کے بعد امن میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اسی بنیاد پر امارت اسلامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے درمیان غیر جانبدار رہے گی اور پڑوسی سمیت کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گی اور نہ ہی اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دے گی۔

امارت اسلامیہ نے ملک کی ترقی اور معاشی استحکام کے لئے جو پالیسی اختیار کی ہے اس کے مثبت اثرات ظاہر ہورہے ہیں، افغانستان کی کرنسی میں استحکام اور معیشت کی بہتری جیسی اہم پیشرفت پڑوسی ممالک کے لئے مثبت پیغام ہے، بالخصوص برادر اسلامی ملک پاکستان جو معاشی لحاظ سے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے، اس کے بہتر مفاد میں پرامن اور مستحکم افغانستان ہی ہے کیونکہ ٹاپی، ٹرانس ریلوے اور کاسا 1000 جیسے عظیم منصوبوں کے نفاذ سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی توانائی کے بحران کے خاتمے اور سالانہ ٹرانزٹ فیس کی مد میں کروڑوں ڈالرز کی آمدنی سے اس کے اکانومی میں واضح بہتری آسکتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان گزشتہ دو برس کے دوران سرمہری کے شکار تعلقات کی وجہ سے ان دونوں ممالک کی تجارت اور ٹرانزٹ پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ امارت اسلامیہ کی آمد سے قبل افغانستان کو پاکستان سے 4 ارب ڈالرز کی درآمدات 40 کروڑ ڈالرز تک کم ہوگئیں، اسی طرح پاکستان میں افغان ٹریڈ ٹرانزٹ 70 فیصد کم ہوا، اس کی وجہ پاکستان کی متزلزل پالیسیاں ہیں، کبھی افغان تاجروں کے ٹریڈ ٹرانزٹ پر بین الاقوامی اصولوں کے برخلاف 10 فیصد ٹیرف بڑھا کر کنٹینرز کو مہینوں تک کراچی بندرگاہ سے جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے، کبھی سیزن کے موسم میں سرحدوں کو بند کرکے افغان تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان دیتا ہے۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے امارت اسلامیہ نے درآمدات کے لئے وسطی ایشیا کے ممالک کا رخ کیا اور برآمدات کے لئے چاہ بہار بندرگاہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اب افغان تاجر چاہ بہار بندرگاہ کو درآمدات اور برآمدات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

یہ امر ضروری ہے کہ عارضی طور پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بجائے مستقل طور دوستانہ تعلقات بحال رکھنے کے لئے پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے، جس طرح امارت اسلامیہ نے سیاسی اور سیکیورٹی مسائل کے بجائے معاشی استحکام کو ترجیح دی ہے اور اسی بنیاد پر اپنی پالیسی وضع کی ہے، پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی اور سیکورٹی مسائل کے بجائے باہمی تجارت اور معاشی استحکام کی پالیسی کو ترجیح دیں جو دونوں ممالک کے بہتر مفاد میں ہے اور معاشی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ اس صورت میں دونوں ممالک کے درمیان مستقل طور دوستانہ تعلقات قائم رہ سکتے ہیں جس کے دیرپا اثرات دونوں ممالک کی معیشت پر مرتب ہوں گے۔