کابل

ذکر کرنے والوں کی فضیلت

ذکر کرنے والوں کی فضیلت

خزیمہ یاسین

حضرت نبیِ مُکرّم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک اہم حدیث میں ہمیں ہمارے مہربان رب تعالی کی خوش نودی اور مَحبت حاصل کرنے کا راستہ بتایا ہے۔ اگر ہم اس راستے پر چلیں تو اللہ تعالی ہم سے خوش ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ
حضرت پیغمبرِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک فرمان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ وسلم کے بے حد پیارے اور دِل نشین صحابی تھے۔یہ نبیِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے دَرِ اقدس کے ایسے سوالی تھے کہ اِنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے صرف احادیث حاصل کرنے اور دین کا علم سیکھنے کے علاوہ کوئی مطلب نہیں تھا۔ اِسی لیے احادیث کی کتابوں میں سب سے زیادہ روایت کردہ احادیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہیں۔ اِن کی روایت کی گئی احادیث کی تعداد 5 ہزار 374 ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ‘صحیح مسلم’ میں روایت کردہ مطلوبہ حدیث کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ حَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَذَكَرَهُمُ اللہُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۞
ترجمہ: حضرت رسول کریم مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب بھی کوئی جماعت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کرتی ہے تو اُس (جماعت) کو وہ فرشتے گھیر لیتے ہیں (جو راستوں میں اہلِ ذکر کو ڈھونڈھتے پھرتے ہیں)، اور رَحمت اُس جماعت کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اُس جماعت پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُس جماعت کا تذکرہ اپنے پاس موجود فرشتوں، مُقَرَّبِین اور ارواحِ انبیاء سے فرماتے ہیں۔
ذکر کا معنی ہے یاد! لہذا، ذِکرُاللہ کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی کو دھیان میں رکھنا، یعنی اللہ تعالی کو یاد کرنا۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں درج ہے؛ جو لوگ اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہیں، اللہ تعالی اُن سے خوش ہو کر اُن پر سکینہ نازل فرماتے ہیں۔
سکینہ یا سکینت بہت اَہم نعمت ہے، اِس کی وضاحت بے حد ضرور ی ہے۔البتہ اِس سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری تمام عبادات اور ہر کام کی رَوح اور مغز اللہ تعالی کا ذکر ہے۔ اگرچہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں، اس کے باوجود قرآن مجید میں جس عبادت کا باربار تذکرہ کیا گیا اور ترغیب دی گئی ہے، وہ اللہ تعالی کا ذکر ہے۔ کیوں کہ یہ عبادت اللہ تعالی کو بہت محبوب اور پسند ہے۔ جب کوئی مسلمان اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالی بدلے میں اُس مسلمان پر سکینت نازل فرماتے ہیں۔
یہاں سمجھنا چاہیے کہ سکینہ کا معنی اور مطلب ہے دل کا اطمینان اور رُوح کا سکون!
سکینہ، یعنی دل کا اطمینان اور رُوح کا سکون کائنات کی وہ واحد نایاب دولت ہے، جو صرف اسلام کے پاس ہے۔ اور اِسے کوئی بھی مسلمان اور مومن تب ہی حاصل کر سکتا ہے، جب وہ کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہے۔ دراصل یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دل کا اطمینان اور رُوح کا سکون آخر کون سی سیپ کا موتی ہے، جس کی اِس قدر اَہمیت ہے؟!
ہمیں یہ مُعَمَّا سمجھنے کے لیے قرآن مجید ہی رہنمائی دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی سورۃ الفتح کی آیت 4 میں فرماتے ہیں:
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ۝
ترجمہ: وہی اللہ ہے، جس نے ایمان والوں کے دِلوں میں سکینت اُتار دی، تاکہ اُن کے ایمان میں مزید ایمان کا اضافہ ہو۔
اگرچہ اِس آیت کا پسِ منظر “صلح حدیبیہ” کا واقعہ ہے، مگر یہاں لفظ سکینہ یعنی دِل کے اطمینان اور رُوح کے سکون کی وضاحت کرنا مقصود ہے۔
مذکورہ وضاحت سے یہ نکتہ حاصل ہوا ہے کہ ذِکرُاللہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سکینت اور اطمینان ایسا قیمتی موتی ہے، جس سے اللہ تعالی پر ہمارا ایمان اور یقین مزید بڑھ جاتا ہے۔ جب ہم اللہ تعالی کا ذکرتے ہیں تو ہمارا دل اللہ تعالی کی مَحبت، رَحمت اور عِنایت سے خودبخود محسوس کرتا ہے کہ اُسے سکون اور اطمینان حاصل ہو رہا ہے اور ہمارا اللہ تعالی پر ایمان اور یقین مزید بڑھ گیا ہے اور بڑھ جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ اللہ کا فضل ہے۔
اسی لیے قرآن مجید نے باربار مسلمانوں کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رہا کریں، تاکہ اوّل تو اُن کا ایمان اور یقین سلامت رہے اور دوم یہ کہ اُن کے بے چین دِلوں کو سکون ملنے سے اُن کے ایمان اور یقین میں مزید اضافہ ہوتا رہے۔ جیسا کہ سورۃ الرعد کی آیت 28 میں درج ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللہِ،-اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ۝
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں، جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دِل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے، جس سے دِلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیات اور درج بالا حدیثِ مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ ہم بطور مسلمان ہر وقت اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول اور مصروف رہیں۔ جب کہ ذکر ایسی آسان عبادت ہے، جس کے لیے کسی خاص وقت کی ضرورت ہے اور نہ باوضو رہنے کی شرط ہے۔ ایک مومن گھر پر ہو یا دکان پر، سفر میں ہو یا حضر میں، ہاتھ پاؤں سے کام کر رہا ہو یا بستر پر آرام کر رہا ہو، اُسے ہر وقت ذِکرُ اللہ میں مشغول رہنے کی سہولت و فُرصت حاصل رہتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی سورہ آلِ عمران کی آیت 191 میں فرماتے ہیں:
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ۝
جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔
کیوں کہ ذکر سے حاصل ہونے والی ایمان کی سلامتی اور مضبوطی ہی وہ سرٹیفکیٹ ہے، جو ہمیں جنت میں اُس دروازے سے لے کر جائے گا، جس سے ذکر کرنے اور علم والے داخل ہوں گے۔ اِن شاء اللہ