کابل

روزہ تقوی کا شعور پیدا کرتا ہے

روزہ تقوی کا شعور پیدا کرتا ہے

 

خزیمہ یاسین

رمضان المبارک اپنے مقاصد کے اعتبار سے ایک منصوبہ بند مشن ہے۔ اِس ماہِ مبارک کی آمد و رفت مسلمانوں کو اُن کی زندگی کی درست راہ بتانے اور اُس پر قائم رکھنے کے لیے متعین کی گئی ہے۔
رمضان المبارک بنیادی طور پر مسلمانوں میں ایک توانا روح پیدا کرتا ہے، جس سے ایمان مضبوط اور جان دار ہو جاتا ہے۔ اِس کا مشاہدہ ہر کسی کو رہتا ہے۔ عموماً رمضان المبارک کے علاوہ دنوں میں کچھ لوگ اللہ تعالی کی بندگی، خصوصا نماز اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، خصوصا اطاعت سے غافل رہتے ہیں۔ قرآن پاک اور درود شریف کی تلاوت سے دُور رہتے ہیں۔ جیسے ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آتا ہے، عمل سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے مسلمان بھی بغیر کسی ترغیب و ترہیب کے مسجدوں کا رُخ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اللہ تعالی رمضان المبارک میں شرکش شیاطین کو بند کر دیتے ہیں۔ جس سے کسی تلقین کے بغیر مسلمانوں کا دل عبادت اور بندگی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ میلان درحقیقت رمضان المبارک کی وہ خاص رحمت ہے، جو مسلمان کے دل میں اللہ تعالی کے ساتھ جُڑ جانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ مسلمان نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ تلاوتِ قرآن مجید کا اہتمام کرتے ہیں۔ ثواب حاصل کرنے کے لیے روزہ داروں کی سحری و افطاری کا انتظام کرتے ہیں۔ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کے سامنے اپنی نادانی کی حرکتوں پر پشیمان ہوتے ہیں۔ نتیجۃً اللہ تعالی ایسے مسلمانوں کو گناہوں سے پاک فرما دیتے ہیں۔اُنہیں نماز و بندگی میں لذت عطا فرماتے ہیں۔ ذکر و فکر کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ جذبۂ خیرسگالی کے تحت غربا اور مساکین کے ساتھ تعاون و ہمدردی کی جاتی ہے۔ یہ سب اللہ تعالی کی طرف سے توفیق، رحمت اور محبت ہوتی ہے، جسے وہ اپنے بندوں پر نچھاور کرتے ہیں، تاکہ لوگ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر جنت میں جانے کے قابل ہو جائیں۔
اسی لیے اللہ تعالی نے سورۃ البقرۃ کی آیت 183 میں بے انتہا پیار اور پنائیت سے لبریز الفاظ کے ذریعے مسلمانوں کو خطاب فرمایا ہے:
يٰٓـاَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۝
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو۔
اللہ تعالی نے کیسے دل نشین انداز میں مسلمانوں کو اُن کی حقیقت کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ “اے ایمان والو! یعنی اے لوگو! تم ایمان والے ہو۔ تم عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت کے علَم بردار ہو۔ تم اللہ تعالی کی الوہیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھنے والے لوگ ہو۔ اور یہ روزوں کی فرضیت کا معاملہ نیا نہیں ہے، بلکہ تم سے پہلی اُمّتوں پر بھی روزے فرض کیے جاتے رہے ہیں۔ اس لیے اپنے خدا کے نام پر خوش دلی اور مکمل تابع داری کے ساتھ روزے رکھو، تاکہ تم میں تقوی اور پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو جائے۔
یہ بات اللہ تعالی کے علم میں ہے کہ انسان بظاہر مشکل نظر آنے والے احکامات پر عمل بجا لانے کے لیے بہت زیادہ دل جمعی اور عزم و ہمت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ روحانی صفات ہیں۔ جب کہ خدائی احکامات پر عمل کرنے میں سر تا پیر انسان ہی کا فائدہ ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالی نے مومنین سے محض اپنی محبت کی خاطر مذکورہ روحانی صفات کی اُٹھان کے لیے رمضان المبارک جیسا بابرکت مہینا متعین فرما دیا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالی نے رمضان المبارک میں نازل کی جانے والی آسمانی برکتوں، رحمتوں اور نوازشوں کی تاثیر اِس قدر عقل افزا بنائی ہے کہ اگر انسان مکمل خلوص و چاہت کے ساتھ باقی کے گیارہ ماہ دین پر سلامت و قائم رہنا چاہے تو یہ ایک ماہ کی روحانی سرگرمیاں اُس کے لیے بطور زادِراہ کافی ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک ماہ مومن میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے، جو تمام سال اُسے دین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہمت و استقلال اور جذبہ و توانائی سے لبریز کر دیتا ہے۔ اِس روحانی توانائی کا دوسرا نام درحقیقت “اللہ تعالی کی شدید پکڑ کا خوف، اللہ تعالی سے گناہوں سے پاک کر دینے والی مغفرت کی امید اور اللہ تعالی سے ہمیشہ جُڑے رہنے کے لیے بے پایاں محبت ” ہے۔ رمضان کا بھی یہی مقصد ہے۔
بنیادی طور پر تقوی کا شعور ہی وہ روحانی نگہبان ہے، جو شیطان کی طرف سے کسی بھی مومن کے دل میں گناہ کا جذبہ پیدا کیے جانے پر مومن کو اللہ تعالی کی پکڑ، مغفرت اور محبت کی طرف متوجہ کر کے گناہ سے رُک جانے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ اور یہی اللہ تعالی کا مطلوب ہے۔ اسی لیے شریعت کے مقاصد اور تقوی کی حقیقت و اہمیت کے تناظر میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ “ہر مسلمان پر ہر قسم کی نیکی کرنا فرض نہیں ہے۔ البتہ ہر مسلمان پر ہر قسم کے گناہ سے بچنا فرض ہے۔” یہی وجہ ہے کہ تقوی کا شعور اپنی باریکی بینی کی بنیاد پر مومن کے دل میں کسی گناہ کا وسوسہ بھی پیدا ہو رہا ہو تو اُسے بھی ختم کر دیتا ہے۔ کیوں کہ سورۃ المائدۃ کی آیت 7 کے تناظر میں تقوی کا شعور مومن کو یہ یاد دہانی کراتا ہے:
اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝
اللہ یقیناً سینوں کے بھید سے پوری طرح باخبر ہے۔
تقوی کی اس قدر گہری نگہبانی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ مومن ہر دم اور ہر لحظہ گناہ سے بچا رہتا ہے۔ قرآن مجید کے سب سے پہلے مخاطین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین تقوی کی گہری معنویت سے باخبر تھے۔ اُنہیں تقوی کی قدر و منزلت کا علم تھا۔ اسی لیے وہ تقوی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر اُس کے مطابق صبح و شام کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے تقوی پیدا کرنے کے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ روزے کو بھی تقوی کی بیداری کا سبب قرار دیا ہے۔ روزہ مومن کے دل کو اللہ تعالی کی یاد کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنی تنہائی میں بھی کچھ کھانے پینے سے رُک جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ مومن اللہ تعالی کی پکڑ سے ڈرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس ڈر کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے بھی مومن اللہ تعالی سے مغفرت کا امیدوار ہے۔ وہ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ مومن اللہ تعالی سے محبت کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنی محبت کے معیار کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔