کابل

سلام ہو خبیب رضی اللہ عنہ کے بیٹے!

سلام ہو خبیب رضی اللہ عنہ کے بیٹے!

محمد افغان

فلسطینی شہر خان یونس کے قصبے بنو سہیلہ کی ایک مقامی مسجد کا امام، حافظِ قرآن اور پُرنور چہرے والا ‘تیسیر ابو طعیمہ شہید رحمہ اللہ’ اپنے رب کے سامنے ایسی حالت میں حاضر ہوا ہے کہ وہ اپنے رب سے راضی ہے اور اُس کا رب بھی اُس سے راضی ہے، جس نے اُسے دنیا کی سب سے مبارک موت شہادت سے سرفراز فرمایا ہے۔ نحسبہ کذالک، واللہ حسیبہ!
جب قابض اور ناجائز اسرائیل کے ڈرون طیارے نے اُسے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا تو اُس نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اُٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ “اسلام کی خوب صورتی یہ ہے کہ جہاد میں فتح ہوتی ہے یا شہادت ہوتی ہے۔ جہاد میں ناکامی نام کی کسی جنس کا کوئی وجود نہیں ہے۔”
تیسیر ابوطعیمہ نے اپنے آخری لمحات میں اپنے رب کے حضور سجدے کے حالت میں حاضری دی ہے۔ اُس نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ اُنہی حضرت خُبَیب بن عدی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے، جنہوں نے شہادت سے پہلے دو رکعت نماز کی بنیاد رکھی تھی۔ حضرت خُبَیب بن عدی رضی اللہ نے جیسی مظلومانہ حالت میں شہادت کا سہرا اپنے سر سجایا تھا، آج اُن کے روحانی فرزند تیسیر ابوطعیمہ نے اُن کی سنت اور یاد تازہ کر دی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3989 میں درج کیا ہے۔
حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے رہائشی انصاری صحابی ہیں۔ حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے جنگِ بدر میں حارث بن عامر بن نوفل مشرکِ مکہ کو قتل کیا تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سَن 3 ہجری میں حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو دس صحابہ پر امیر بنا کر جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن میں ایک حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ عسفان اور مکہ کے درمیان ایک قبیلہ بنولحیان رہتا تھا، اس کو اِن 10 صحابہ کے معاملے کی اطلاع ہو گئی۔اس قبیلے کے 100 تِیراندازوں نے اس مختصر جماعت کو گھیر لیا۔یہ صحابہ ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور باہم جھڑپ شروع ہو گئی۔ 7 صحابہ اسی جگہ شہید ہو گئے۔جب کہ باقی تین میں سے ایک حضرت خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ بنولحیان کے تیراندازوں نے اِنہیں کہا کہ اگر تم ہتھیار ڈال دیتے ہو تو تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ چناں یہ تینوں جاں بخشی کے وعدے پر پہاڑی سے اُتر گئے۔ تیراندازوں نے اپنی کمانوں کے تار کھول کر ان کے ہاتھ باندھ دیے۔ جس پر ایک صحابی حضرت عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے اس بندش کو غیرت کے منافی سمجھا اور وہیں مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اب صرف حضرت خبیب بن عدی اور حضرت زید بن دَثَنَہ رضی اللہ عنہما باقی رہ گئے۔ تِیراندازوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح مکہ کے بازار میں ان دونوں حضرات کی فروخت کے لیے بولی لگا دی۔ چناں چہ حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بدر میں قتل ہونے والے مشرک حارث بن عامر کے بیٹوں نے ان دونوں اصحاب کو خرید لیا۔ مقتول حارث کے ایک بیٹے عقبہ نے انہیں اپنے گھر میں قید کر کے ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ وہ کافی عرصہ یوں ہی قید رہے۔ مشرک عقبہ بن حارث نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے اپنے کافر باپ کا بدلہ لینے کی خاطر حضرت زید بن دَثَنَہ رضی اللہ عنہ کو دورانِ قید ہی شہید کر دیا، تاکہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو موت کا خوف دِلا کر ایمان کمزور کیا جا سکے۔ جب کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ پر موت کی ہیبت کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ بالکل پُرسکون تھے۔
جب مقدس مہینے گزر گئے تو مشرکین نے ان کے قتل کی خصوصی تیاریاں شروع کر دیں۔ مشرکین نے حدودِحرم سے باہر ‘تنعیم’ نامی جگہ پر آپ رضی اللہ عنہ کے لیے پھانسی گھاٹ تیار کیا۔ وہاں لوگوں کا بڑا ہجوم جمع کیا گیا۔ عورت و مرد، امیر و غریب اور بچے و بوڑھے… غرض ایک دنیا وہاں تماشا دیکھنے پہنچ گئی۔ جب لوگ حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کی پھانسی کے لیے اُنہیں مشرک عقبہ کے گھر سے لینے پہنچے تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ذرا ٹھہرتے ہو کہ مَیں اپنے خدا کے حضور پیشی سے پہلے ‘عشقِ دوگانہ’ ادا کرتا جاؤں؟!
بیدمؔ نمازِ عشق یہی ہے خدا گواہ
ہر دم تصورِ رُخِ جانانہ چاہیے
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی حدیث میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ الفاظ ذکر فرمائے ہیں:
وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ۔
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے حسنِ عمل سے ہر اُس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے، قتل سے پہلے دو رکعت (نماز کی سنت) قائم کی ہے۔
چناں چہ مشرکین نے آخری خواہش کے طور پر یہ بات منظور کر لی۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے نماز کے بعد مشرکوں سے فرمایا:
“اللہ کی قسم! اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ مجھے موت سے گھبراہٹ ہو رہی ہے تو مَیں نماز کو مزید طویل کر دیتا۔”
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کی وجہ سے چاہتے تھے کہ نماز طویل کر دیں، مگر صرف اِس نکتۂ نظر سے مختصر پڑھی کہ کہیں مشرکین کو یہ کہنے کا موقع نہ مل جائے کہ ‘مسلمان موت کے ڈر سے نماز لمبی کر رہا ہے۔’ چناں چہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہو کرتختۂِ دار کی طرف روانہ ہوگئے۔ گویا اپنے شہید ساتھیوں کو یاد کر کے بہ زبانِ حال کہہ رہے ہوں ؎
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سُرخ رُو کر کے
راستے میں اُن کی زبان پر یہ دعا تھی:
اللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا۔
اے اللہ ! ان (مشرکین) میں سے ہر ایک کو شمار کر لے اور ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کوبھی باقی نہ چھوڑنا۔
پھر یہ اشعار پڑھتے ہوئے ایک بڑے درخت کے نیچے پہنچے، جس پر پھانسی کا پھندا لگایا گیا تھا:
فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِي
جب مَیں اسلام پر قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ مَیں اللہ کی راہ میں کس رُخ پر پچھاڑا جاتا ہوں؟!
وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلٰهِ وَإِنْ يَشَأْ
يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے ۔ اگر وہ (رب) چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔
جب سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا تو ایک پتھر دل مشرک نے تیز دھار نیزے سے آپ کے جگر میں چھید کر کے کہا:
“کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمد (ﷺ) پھنس جائیں اور تم چھوٹ جاؤ۔”
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے نہایت سنجیدگی اور وقار سے جواب دیا:
“خدا کی قسم! مَیں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان بچ جانے کے لیے نبی کریم ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چُبھ جائے۔”
مشرکوں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے کہا:
“تم اسلام چھوڑ دو، ہم تمہیں آزاد کر دیں گے۔”
حضرت سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“بخدا! اگر تم تمام دنیا کی دولت و حکومت بھی میرے سامنے رکھ دو، مَیں تب بھی اسلام نہیں چھوڑوں گا۔”
مشرکین نیزوں سے جسم کو زخمی کرتے اور ایسے سوال کرتے جاتے۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
جب مشرکین ایک مومن کے جسم میں موجود رُوحِ محمد (ﷺ) کے آگے ہار گئے تو عقبہ بن حارث اور مغیرہ عبدری نے آپ رضی اللہ عنہ کے گلے میں پھندا ڈال کر پھانسی دے دی۔ کفار نے لوگوں کو اسلام سے ڈرانے اور عبرت پیدا کرنے کے لیے پھانسی کے بعد بھی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے کے جسم کو وہیں لٹکے رہنے دیا اور مزید یہ کہ وہاں چند اسلحہ بردار تعینات کر دیے، تاکہ کوئی پھندے سے نعش نہ اُتار سکے۔
یہ بہت عجیب اور دُکھ بھرا منظر تھا کہ وہاں تماشے کے لیے موجود مشرکوں کے دِل بھی اِس سے لرز اُٹھے تھے۔ تاریخ میں درج ہے کہ تب جب کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی یہ منظر دیکھنے کے لیے وہاںموجود تھے۔ اُنہوں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا یہ دردناک تشدد دیکھ کر ساتھ موجود اپنے چھوٹے بیٹے کو سینے کے ساتھ چِپکا لیا۔ ایک طرف کفر اپنے تمام تر ہتھکنڈوں کے ساتھ ایمان کا مقابلہ کرنے آگیا تھا۔ دوسری طرف اجنبی اور بے بس قیدی تھا، جس کے ایمان نے کفار کو مات دے دی تھی۔ اُس مجسّمِ اسلام نے مکمل صبر و رضا کے ساتھ یہ ظلم برداشت کیا تھا! انہوں نے اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی خدا کے دین پر قربان کر دی۔ جب نبی کریم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس سانحے کی اطلاع ہوئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
“سلام ہے تم پر اے خبیب!”
چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عَمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو اُن شہیدِ اسلام کی نعش کا پتہ لگانے کے لیے مکہ بھیجا۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ چھپتے چھپاتے رات کے وقت سُولی کے پاس گئے اور درخت پر چڑھ کر وہ رسّی کاٹ دی، جس سے جسم مبارک لٹک رہا تھا۔چناں چہ رسّی کاٹنے سے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا پاک جسم زمین پر آ پڑا۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ مظلوم ترین شہید رضی اللہ عنہ کا جسم مدینہ لے جانے کے لیے درخت سے اُترے تو دیکھا کہ وہاں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک موجود ہی نہیں ہے۔ درحقیقت فرشتے اُن کے جسم کو اُٹھا کر وہاں لے گئے تھے، جہاں شہدائے اسلام کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ جہاں اسلام کی خاطر اُن کی سہی ہوئی تکلیفوں کے بدلے رب تعالی انعامات عطا فرماتے ہیں۔
ساری مصیبتوں کو جو ہنس ہنس کے سہہ گئے
دار فنا میں صرف وہی زندہ رہ گئے
وہ جوش تھا کہ پھاند گئے کوہسار بھی
وہ عزم تھا کہ اٹھے تو تا مہر و مہ گئے
سینوں میں صبروضبط کی وہ تیز آگ تھی
ظلم و ستم کے کوہِ گراں گل کے بہہ گئے
حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کے روحانی بیٹے تیسیر ابوطعیمہ نے اپنے آپ میں اسرائیل کو جتایا ہے کہ بہادری یہ ہوتی ہے۔ اسرائیل کی اوقات نہیں تھی کہ وہ زمینی جنگ میں آمنے سامنے مقابلہ کر کے اپنا جنگی اخلاق پیش کر سکے۔ بہادری یہ ہے کہ اپنے ایمان، اپنی قوم اور اپنے وطن کے لیے یوں خون بہایا جاتا ہے، جیسے تیسیر ابوطعیمہ نے قربان کیا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی یہ حالت ہے کہ القسّامی مجاہدین کی ہیبت سے بھاری اور موٹے لوہے سے تیار دنیا کے بہترین ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں میں بھی اُن کا پیشاب نکل رہا ہے۔ وہ اعصابی تناؤ اور لُوزموشن کے مریض بن چکے ہیں۔ یہ غلیظ، مضحکہ خیز اور بزدل اسرائیلی فوج مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لیے شیرخوار بچوں کی طرح پیمپر لگا کر بندوق پکڑتی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کے حواس اور اعصاب اِس قدر شل ہو چکے ہیں کہ مجاہدین کے ڈر سے نیند کی حالت میں بھی اُن کا پیشاب نکل جاتا ہے۔ وہ فلسطینی مجاہدوں کے خوف سے نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ اسرئیلی فوج کا محکمۂ صحت ایسے ذہنی توازن کھونے والے فوجیوں کی صحت کے لیے نفسیاتی مرکز / پاگل خانے بنا رہا ہے، جہاں وہ پاگلوں کی اِس فوج کو سنبھال کر رکھے گا، تاکہ عام اسرائیلی معاشرہ اُن کے شر سے محفوظ رہ سکے۔
اسرائیلی میڈیا نے کئی ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں کہ جنگ اور موت کے خوف سے پاگل ہو جانے والے فوجیوں کو محاذ سے واپس لایا گیا تو وہ برباد ذہنی توازن کی وجہ سے اپنے ہی ساتھیوں اور عوام پر گولیاں چلا دیتے ہیں۔ بالکل یہی حالت اُن امریکی و نیٹو فوجیوں کی بھی تھی، جو افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کے لیے آئے تھے۔ دنیا یہ کیسے سمجھ سکتی ہے کہ مجاہد اسلام کا وہ بہادر سپوت ہوتا ہے، جس پر موت بھی فخر کرتی ہے۔ اِنہیں زندگی سے زیادہ شہادت کی تمنا ہوتی ہے۔ کافر فوجی جتنی محبت زندگی سے کرتا ہے، اسلام کا مجاہد اس سے زیادہ اُلفت موت سے کرتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے تیسیر ابوطعیمہ کی ویڈیو اپنی جنگی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے بنائی تھی، مگر یہ ویڈیو بجائے خود فلسطین کے حق میں بہتر ثابت ہوئی ہے، جس میں اسرائیل کا ظلم مزید واضح ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس ویڈیو کے ذریعے دنیا کی فلسطین کے ساتھ ہمدردیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ یہ اللہ ہی ہے، جو مُردہ سے زندہ کو نکالتا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی اِس صفت کا تذکرہ سورۂ آلِ عمران کی آیت 27 میں یوں فرمایا ہے:
تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ ز وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ۔
تُو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تُو ہی بے جان چیز میں سے جان دار کو برآمد کر لیتا ہے۔
اللہ تعالی نے اِس اسرائیلی ظلم اور شر کو فلسطین کے لیے دنیا کی ہمدردی اور اسرائیل کی عالمی تنہائی و لعن طعن کا سبب بنا دیا ہے۔
جب کہ اللہ تعالی نے تیسیر ابوطعیمہ جیسے لوگوں کے لیے ہی فرما رکھا ہے:
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (سورۃ الفجر: 27 تا 30)
(نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان! جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تُو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں۔