کابل

سچ پوچھیے تو آج ضرورت عمر کی ہے

سچ پوچھیے تو آج ضرورت عمر کی ہے

 

محمد افغان

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی شان پر ہم ایسے بے لفظ انسان کیا کہیں، جب کہ اللہ تعالی نے اُنہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ کا پروانہ عطا فرما دیا ہے۔ اللہ تعالی کا راضی نامہ ہی وہ حقیقی کامیابی ہے، جسے یہ مل گیا، وہ دنیا و آخرت کا حقیقی خوش نصیب انسان ہے۔ حضرت پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر صحابی کی شان ایسی عجیب اور قابلِ رشک ہے کہ خاکستر دل میں ایمان کی فقط چنگاری رکھنے والا ادنی مسلمان بھی چاہتا ہے کہ وہ صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ پر اپنی جان قربان کر دے۔
خصوصا جب حضرت عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ چِھڑ جائے تو ہماری حالت ایسی ہوتی ہے، گویا کسی نے دُکھی دل کے بے چین تاروں پر انگلیاں چلا دی ہوں۔ بارہا دیکھا ہے کہ اِدھر حضرت جی عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ شروع ہوا تو اُدھر کئی لوگوں کے رُخسار تَر ہو جاتے ہیں۔ہم جانتے ہیں، پھر بھی زیبِ داستاں کے لیے دل مچل جاتا ہے کہ ناجانے یہ برستی آنکھوں نے ایسا کیا دُکھ دیکھا ہے کہ نامِ عمر ہی دلِ شکستہ کا مرہم معلوم ہوتا ہے۔ گویا کہ کسی نے جلے پر شہد لگا دیا ہو۔ بقول فیض احمد فیض:
کر رہا تھا غم جہاں کے حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
خصوصا آج کے دِگرگوں حالات نے مسلمانوں کو ایسا درد دیا ہے کہ دلِ پریشاں کی ضد ہے کہ وہ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کے کاندھے سے لگ کر خوب دھڑکے! خوب دھڑکے! خوب دھڑکے! کیا امن، کیا معیشت، کیا سیاست، کیا جنگ،کیا خوشیاں، کیا بہاریں…کوئی بھی تو ایسا پہلو نہیں، جس کے سُدھار کے لیے ہم “ہائے کاش اے عمر! تم کہاں ہو؟” نہیں پکارتے۔ نہ جانے یہ دل کو عمر الفاروق کے سوا کوئی دوسرا کیوں نہیں سوجھتا۔ رب نے ایسا کیا رکھا تھا عمر الفاروق میں؟
ہم انصاف کے لیے روتے ہیں۔ ہم دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ ہم امن کے لیے دربدر ہیں۔ ہم سالہا سال سے مار کھا رہے ہیں۔ ہم کئی صدیوں سے عدل سے محروم ہیں۔ بھوک سے خودکشی کرتے ہیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انصاف نہ ملنے پر خود کو آگ لگا لیتے ہیں تو کوئی کفن دینے والا نہیں۔ ہمارا برما ، ہمارا فلسطین، ہمارا شام، ہمارا مصر، ہمارا عراق، ہم خود، ہمارے خاندان، ہمارا مستقبل اور ہماری عبادات۔۔۔ کیا کچھ بھی محفوظ ہے؟!
میرے اسلام لانے سے یہ چھپ کر کیوں عبادت ہو
پڑھیں گے آج کعبہ میں، وہ روکے جس کی طاقت ہو
اُڑا دوں گا مَیں سَر اُس کا، کفر کا جو نواب آیا
تمہیں یارو مبارک ہو، عمر ابنِ خطاب آیا
جب ہمارے دل و دماغ کو حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی یہ شان و تقدیس بہاروں جیسی خوشیاں بخشتی ہے تو دل میں اُن کی یاد کیوں تازہ نہ رہے؟! ایک مرتبہ ایک بوڑھے شخص کو دیکھا، جو حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا ‘ایک عورت اور بھوکے بچوں والا’ قصہ سُن رہا تھا، ساتھ ہی اُس کی آنکھوں سے حسرت و غربت اور بے بسی کے آنسو برس رہے تھے۔ درحقیقت وہ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کو یاد کر رہا تھا کہ وہ ہوتے تو مَیں آج یوں لاچار و بے بس نہ ہوتا۔ میری ہانڈی میں تو دل کے بہلانے کے لیے پانی بھی نہیں ہے۔
یہ واقعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ‘فضائل الصحابہ’ کی جلد 1 کے صفحہ 290 پر ذکر کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مصعب کہتے ہیں کہ میرے والد عبداللہ بن مصعب نے مجھے بیان کیا،انہیں ربیعہ بن عثمان الہدیری نے اور انہیں زید بن اسلم نے بیان کیا ، زید بن اسلم اپنے والد (اسلم ،جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) سے نقل کرتے ہیں:
ہم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ‘حرۂ واقم’ نامی مقام کی طرف نکلے۔ جب ہم مقامِ ‘صرار’ پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ کچھ وہاں آگ جل رہی ہے۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اسلم !ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں کچھ لوگ پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ وہ رات اور سردی کی وجہ سے بے بس محسوس ہوتے ہیں۔آؤ، اُن کے پاس چلیں اور حالات معلوم کریں۔ ہم جلدی جلدی چلتے ہوئے اُن کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ایک عورت ہے اور اُس کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں، جو بہت درد سے رَو رہے ہیں۔ جب کہ آگ پر ہنڈیا رکھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے روشنی والو!السلام علیکم! (حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں اے آگ والو! کہنا پسند نہ کیا۔)
عورت نے جواباً ‘وعلیکم السلام’ کہا
حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا ہم قریب آ جائیں؟
چوں کہ وہ عورت حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کو چہرے سے نہیں پہچانتی تھی۔ اس لیے وہ بولی: خیر سے قریب آ جائیں یا ہم سے دُور رہیں۔
چناں چہ جب ہم قریب ہوئے تو حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا : تمہیں کیا مسئلہ درپیش ہے اور بچے کیوں رَو رہے ہیں؟
عورت نے کہا: رات اور سردی کی وجہ سے یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہوں اور بچے تو بھوک کی وجہ سے بے چین اور رَو رہے ہیں۔
حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:ہانڈی میں کیا پکا رہی ہیں؟
عورت نے جواب دیا:میرے پاس کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس لیے ہانڈی میں پانی بھر کر چولہے پر چڑھا رکھی ہے، تاکہ بچے بہل کر سو جائیں۔ جنابِ والا! اللہ ہماری بے بسی اور عمر کی بے پروائی دیکھ رہا ہے۔
حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ تجھ پر رحم کرے۔ عمر کو کیا معلوم کہ تم کس حال میں ہو؟
عورت نے کہا: یہ تو عجیب بات ہے کہ عمر ہمارا حاکم ہے اور اُسے ہی ہمارے حال کی خبر نہیں ہے!
حضرت اسلم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ مجھے فرمانے لگے: ‘چلو، چلتے ہیں!’
چناں چہ ہم واپس ہو کر تیز تیز چلتے ہوئے بیت المال کی طرف آ گئے۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے آٹے کی ایک بوری اور چربی کا ایک ڈبہ نکال کر فرمایا:یہ میرے کاندھے پر رکھ دو۔ مَیں نے عرض کیا:آپ کیوں زحمت کرتے ہیں، مَیں اسے اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا تجھے ہدایت کرے، کیا قیامت کے دن بھی تم ہی میرا بوجھ اٹھاؤ گے؟
لہذا مَیں نے وہ تھیلا آپ کے کاندھے پر رکھ دیا۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ یہ سامان لے کر اُسی عورت کی طرف چل پڑے۔ مَیں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا۔ہم بھاگے بھاگے جا رہے تھے۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر سامان اُس عورت کے پاس رکھ دیا اور تھوڑا سا آٹا نکال کرعورت سے کہنے لگے:مَیں اِسے چھانتا اور صاف کرتا ہوں، تم میرے ساتھ تعاون کرو۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ آٹا چھاننے کے بعد کھانا بنانے کے لیے ہانڈی کے نیچے لگی آگ بڑھکانے کے لیے پھونکیں مار نے لگے۔ جب ک چولہے سے اُٹھنے والا دھواں حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی گھنی داڑھی میں جذب ہو رہا تھا۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو ہانڈی اُتار کر عورت سے فرمانے لگے: کھانا نکالنے کے لیے کوئی چیز لے آؤ۔ وہ عورت ایک برتن لے آئی۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نےکھانا برتن میں ڈال کر عورت سے کہا کہ یہ بچوں کو کھلانا شروع کرو۔ مَیں ان کے لیے مزید کھانا پلیٹ میں ڈالتا ہوں۔چناں چہ بچے کھانے میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا۔ جب کہ کچھ کھانا بچ بھی گیا۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ بچوں کے کھانا کھا لینے کے بعد اُٹھ کھڑے ہوئے۔ چناں چہ وہ عورت اجنبی مردوں کی طرف سے اتنی زیادہ بھلائی ملنے پر کہنےلگی:
اللہ تجھے جزائے خیر دے۔امیرالمومنین (حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ)کے بجائے تمہیں ہی صاحبِ اقتدار (خلیفہ) ہونا چاہیے تھا۔ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ جواباً فرمایا:
جب تم امیرالمومنین کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہنا اور ان شاء اللہ وہیں مجھ سے بھی بات کرنا۔
حضرت اسلم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس تمام منظرنامے کے بعد حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ذرا ہٹ گئے اور ایک طرف ہو کر زانو کے بل بیٹھ گئے۔ مَیں نے حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ سے کہا:
امیرالمومنین! ہمارا مقصد تو کچھ اَور ہے، مگر حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نےمجھ سے کوئی بات نہ کی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ہم بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے رہے، جب بچے کھیلتے کھیلتے تھک کر سو گئے تو حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے اسلم! بھوک نے ان معصوم بچوں کی نیند چھین رکھی تھی اور پیٹ کی آگ انہیں رُلا رہی تھی۔اس لیے میرا دل چاہا کہ مَیں تب تک واپس نہ پلٹوں، جب تک کہ مَیں اِن بچوں کو ہنستا ہوا نہ دیکھ لوں۔
ذرا سی تبدیلی کے ساتھ:
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
روتے پھرتے ہیں گلیوں میں بچارے بچے
حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی شان ہی الگ ہے۔ جتنے بھی اُن کے ہم نام نیک حکمران گزرے ہیں، سبھی نے اُن کی یاد تازہ کی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور امیرالمومین مُلّا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ سب ہی حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کے کردار کے وارث تھے۔ امیرالمومین مُلّا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا ‘امارت اسلامیہ’ کی صورت میں لگایا ہوا پودا اب ایک تناوَر درخت بن گیا ہے، جو افغان باشندوں کو اپنے ٹھنڈے سائے اور میٹھے پھل سے فائدہ بخش رہا ہے۔
کچھ قریبی عرصہ قبل افغانستان کے جنوبی صوبوں میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے متاثرین کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ البتہ امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ کے روحانی فرزندوں نے اپنے عوام کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا۔ تمام مشکلات میں اُن کا ہاتھ بٹایا ہے۔ اُن کی پریشانیاں ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے زلزلے سے متاثر ہرات کے ‘اقرا’ نامی قصبے کی تعمیر مکمل کر کے اُسے وہاں کے پریشان حالوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس قصبے کی تعمیرِنو کے لیے 30 ملین افغانی کی لاگت آئی ہے۔ تعمیر کیے گئے گھروں میں دی جانے والی سہولیات کے لیے دو کمرے، ایک باورچی خانہ اور ایک بیت الخلا و غسل خانہ ہے۔ مکانات کی تعمیرِنو کے بعد متاثرین کے حوالے کرنے کی تقریب میں متعلقہ آبادی کے حکام، علما، بزرگوں اور نوجوانوں نے بھی شرکت کی تھی۔ افتتاحی تقریب میں ہرات کی ‘جامع مسجد گزرگاہ’ کے خطیب شیخ فضل الرحمٰن انصاری نے عوام سے یہ بات کہی ہے کہ ‘لوگوں کو چاہیے، متاثرین کے لیے ان جیسے مکانات بنانے میں امارت اسلامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔’
یہ دنیا کو سبق ہے کہ اسلام ہی وہ واحد نظام ہے، جو حکمرانوں کے دلوں میں اپنے عوام کاوہ احساس پیدا کرتا ہے، جس احساس نے حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کو راشن کا تھیلا اپنے کاندھے پر رکھ کر ضرورت مند تک پہنچانے پر مجبور کیا تھا۔ ڈاکٹر تنویر گوہؔر مظفرنگری کہتے ہیں:
گوہؔر جہاں کا نظمِ حکومت بگڑ گیا
سچ پوچھیے تو آج ضرورت عمر کی ہے