کابل

سکھ اور ہندو اقلیتوں کی غصب شدہ زمینیں واگزار کرائیں گے، امارت اسلامیہ

سکھ اور ہندو اقلیتوں کی غصب شدہ زمینیں واگزار کرائیں گے، امارت اسلامیہ

 

کابل۔ (خصوصی رپورٹ)
امارت اسلامیہ کی وزارت انصاف و قانون کا کہنا ہے کہ زمینوں پر قبضے کی روک تھام اور قبضہ شدہ زمینوں کو واگزار کرانے کے لئے قائم کردہ کمیشن نے ملکی سطح پر افغان سکھ اور ہندو اقلیتوں کی غصب شدہ زمینوں کا جائزہ لینے اور واگزار کرانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔

وزارت انصاف و قانون نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ مذکورہ کمیشن ملکی سطح پر غاصبوں اور ظالموں کی طرف سے غصب کی گئی سرکاری زمینوں کی تشخیص اور ان کا تعین کرنے کی ذمہ داری نبھانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

وزارت انصاف کا کہنا ہے کہ اس کمیشن نے دارالحکومت کابل اور صوبوں میں زمینوں پر غیر قانونی قبضہ واگزار کرانے کے لیے تکنیکی وفود کو ہدایت کی ہے کہ وہ مختلف صوبوں میں افغان سکھ اور ہندو شہریوں کی غصب شدہد زمینوں کا تعین اور رجسٹریشن کریں۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ کمیشن کی جانب سے مذکورہ وفود کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا اور غصب شدہ زمینوں کی نشاندہی کے بعد ضروری فیصلہ کیا جائے گا، کیونکہ جس زمین کے مالک ملک کے اندر موجود نہ ہو، اس کا تحفظ کرنا نظام کی ذمہ داری ہے۔

افغانستان میں ہندو اور سکھ کئی صدیوں سے رہ رہے ہیں، 70 کی دہائی سے پہلے افغانستان کے کئی شہروں میں ڈھائی لاکھ کے قریب سکھ اور ہندو خاندان آباد تھے لیکن خانہ جنگیوں کے باعث وہ بھی ہجرت پر مجبور ہوئے۔

جب ڈھائی سال قبل امارت اسلامیہ دوبارہ قائم ہوئی تو ملک میں 300 سے کم سکھ رہ گئے تھے۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں سکھ واپس آئے اور امارت اسلامیہ کی وزارت انصاف و قانون کے حکام سے درخواست کی کہ ان کی غصب شدہ زمینوں کو واپس واگزار کرایا جائے جس پر امارت اسلامیہ نے بالائی سطح پر تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

اب عدالتی حکام کا کہنا ہے کہ لینڈ گراب پریونشن کمیشن اور صوبوں میں اس کے تکنیکی وفود سکھ اور ہندو شہریوں کی زمینوں پر قبضے کے معاملے کی مکمل چھان بین کریں گے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ اگر ان کی زمینوں قبضہ کیا گیا ہے یا قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان دونوں صورتوں میں ضبط شدہ زمینیں ان کے اصل مالکان کو واپس کی جائیں۔

سکھ اور ہندو شہریوں کو بھی اب اطمنان حاصل ہے کہ وطن عزیز میں نہ صرف امن قائم ہے بلکہ اب عدل و انصاف کا بول بھی بالا ہے، بدقستمی سے جارحیت کے سابقہ دور میں دیگر افغان شہریوں کی طرح سکھ اور ہندو شہری بھی بہت متاثر ہوئے کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں ان پر بھی کئی خونریز حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر حملے کابل انتظامیہ کی زیرسرپرستی قائم داعش کی طرف سے کیے گئے، جن میں 2018 اور 2020 میں ہونے والے حملے سب سے خونریز تھے۔

امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد نہ صرف ملک میں مثالی امن قائم ہوا بلکہ ظلم و جبر کا بھی خاتمہ ہوا، بڑے بااثر لوگوں نے سرکاری اور اقلیتوں کی زمینوں پر جو غیر قانونی اور ناجائز قبضے کئے تھے، اس حوالے سے امارت اسلامیہ کی قیادت نے 2023 کے اوائل میں ایک کمیشن قائم کی اور اس کو ہدایت کی کہ وہ ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری اراضی پر قبضے کی روک تھام اور چھینے والی اراضی کو واگزار کرانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کرے۔

اب تک اس کمیشن نے کابل سمیت ملک بھر میں لاکھوں ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی ہے اور نجی زمینوں کو واگزار کرانے کے بعد اصل مالکان کے سپرد کر دیا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، کمیشن کی شفاف سرگرمیوں کی وجہ سے افغان سکھوں اور ہندووں کا اعتماد بڑھ گیا ہے اور اسی وجہ سے وہ واپس اپنے ملک آرہے ہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔