کابل

شکست خوردہ اسرائیل

شکست خوردہ اسرائیل

 

خزیمہ یاسین

ایمان اور کفر کی جنگ کے دوران ایک پہلو بہت دل چسپ ہوتا ہے۔ اِس طور کہ اِسی پہلو کی بنیاد پر جنگ جیتی یا ہاری جاتی ہے۔ جنگ کا یہ انتہائی اہم پہلو ‘نفسیاتی و اعصابی مورال’ ہے۔ جہادِ غزہ کے حوالے سے مخالف اور دہشت گرد فریق اسرائیل نے اپنے تئیں تمام پہلوؤں اور ہر لحاظ سے اپنے مُورال کو کمزور اور ناتواں ثابت کیا ہے۔ اسرائیل نے اپنی ذات کے حوالے سے اخلاقی و نفسیاتی اور حوصلہ مندی کے پہلو سے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا، جس میں وہ غلط ثابت نہ ہوا ہو۔فلسطین پر قابض اسرائیل نے اپنی جنگی اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوئے عام فلسطینی شہریوں کے صرف قتلِ عام ہی نہیں، بلکہ نسل کُشی کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ عام فلسطینی شہریوں کے گھروں کو تباہ کیا ہے۔ تعلیمی مکاتب اور مساجد کو بطور خاص نشانہ بنایا، تاکہ فلسطینیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جا سکے۔ اِن سب سے بڑھ کر جو گھٹیا اور پرلے درجے کے غیرانسانی جرم کا ارتکاب کیا ہے، وہ فوت شدہ اور شہید فلسطینیوں کے اجسام کو قبروں سے نکال کر اُن کے دل، گردے وغیرہ جیسے اہم اعضا چوری کرنا ہے۔
اسرائیل کے اِن تمام جرائم کی بنیاد اُس کے وہ خودساختہ مذہبی تصورات و عقائد ہیں، جن کی بدولت وہ فلسطینیوں کو ایسے جانور سمجھتا ہے، جن کا گاجر مولی کی طرح قتلِ عام صرف جائز ہی نہیں، بلکہ لازمی اَمر ہے۔ جب کہ درحقیقت فی زمانہ انسانیت کے اعلی معیار اور معراج پر اگر کوئی قوم و قبیلہ موجود ہے تو وہ فلسطین کے وہ مسلمان ہیں، جو اپنی بے سروسامانی کے باوجود قبلۂ اوّل کے تحفظ جیسے بلندترین مقصد کے لیے قربان ہو رہے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل خود کو ایک آسمانی مذہب سے منسلک باور کراتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے موجودہ مذہبی عقائد و نظریات کی آسما نی ترازو کے پلڑے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنی تمام تَر فوجی قوت، بے رحمانہ درندگی اور اندھی فرعونیت کے باوجود آسمان کے ازلی و ابدی اور لافانی دھاگے سے کٹی ہوئی ایک ایسی پتنگ کی طرح ہے، جس کا انجام سوائے نُقصان و خُسران کے کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل نے جہادِ غزہ میں جیسی تباہی کا سامنا کیا ہے، وہ اسلام کے حماسی مجاہدین کا وہ زریں کارنامہ ہے، جو طاقت و قوت کے وسیع جنگی ذخائر رکھنے والے مسلم ممالک، خصوصاً o.i.c کے لیے شرم کا بھرپور طمانچہ ہے۔
اِس تمام جنگ میں چار ماہ سے مسلسل نسل کُشی کا شکار ہونے والے عام فلسطینیوں کے عزائم قابلِ رشک اور حوصلے ایمان افروز ہیں۔ جب کہ مجاہدین کے ارادوں کی الگ ہی شان ہے۔ اس کے مقابل اسرائیل کے ارادے ڈگمگا چکے ہیں۔ اُس کے حوصلے پست ہیں۔ اُس کے عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔ جب کہ نفسیاتی پہلو سے اسرائیل کی حالت ایسی بُری ہو چکی ہے، جس سے خصوصاً مسلم دُنیا میں اسرائیل کا چھایا ہوا نام نہاد رعب و دبدبہ سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ اس تناظر میں ایک برطانوی طبی جریدے “دی لانسیٹ” میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی مکمل آبادی کسی نہ کسی درجے میں ‘طوفان الاقصی’ کے اثرات سے متاثر ہو کر وسیع نفسیاتی صدموں کا شکار ہو چکی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنگ میں موت کے خوف اور جانی و مالی نقصانات کی وجہ سے اسرائیلی عوام میں بڑے پیمانے، یعنی قومی سطح پر ڈپریشن اور ذہنی توازن کے بگاڑ کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ نفسیاتی و دماغی توازن کی بربادی کے شکار اکثر وہ لوگ ہیں، جن کے رشتے دار ابھی تک حماس کی قید میں ہیں یا وہ خاندان ہے، جس کا کوئی بھی فرد فوج میں موجود ہے۔
اسرائیل میں نفسیاتی صحتِ عامہ کے تناظر میں قائم محکمے “عران” کی ایمرجنسی ہیلپ لائن پر موصول ہونے والی فون کالیں عام حالات سے دوگُنا بڑھ گئی ہیں۔ اس ٹیلی فون اور نفسیاتی امداد کے الیکٹرانک پلیٹ فارم کے اہل کار ‘شیری ڈینیئلز / Sherry Daniels’ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل میں ہر کوئی متاثرین کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ شیری ڈینیئلز نے اُن بچوں کی صورت حال بھی واضح کی، جو رات کے وقت اپنے گھر والوں کو نہیں چھوڑتے۔ جب کہ ایسے بالغ افراد بھی موجود ہیں، جو جنگ کے خوف سے بنیامین نیتن یاہو کی جنگی پالیسی پر فکرمند اور پچھتاوے کا شکار ہیں۔
اسرائیلی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ‘موشے بار سیمن توف / Moshe bar Simon Tov’ نے انکشاف کیا کہ موجودہ جنگ کے بعد 9.7 ملین کی آبادی میں سے 1 لاکھ نفسیاتی اور دماغی توازن کی خرابی کے حادثات پیش آ چکے ہیں۔ جب کہ اسرائیلی وزیر صحت ‘یوریل بوسو / Uriel Basso’نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کو اپنی “تاریخ کے سب سے بڑے ذہنی صحت کے بحران” کا سامنا ہے۔ حالانکہ دماغی صحت کا شعبہ عام حالات میں بھی نفسیاتی مریضوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے بڑے بحران سے گزر رہا تھا۔ وزارتِ صحت کی طرف سے یہ دُہائی دی گئی ہے کہ “حماس ہولوکاسٹ جیسے طرزِ قتل کے’ڈر اور خوف ‘ کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہی ہے، جس سے یہودیوں میں موت کے خوف کی وجہ سے ہٹلر کی شخصیت کا تاثر تازہ ہو رہا ہے۔”
اسرائیلی حکومت نے دماغی صحت کی عمومی صورتِ حال کے بگڑنے پر نئے ماہر ڈاکٹروں کی بھرتی کا اعلان کیا ہے۔ کیوں کہ موجودہ جنگ میں درجنوں نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر ملک چھوڑ کر یورپ و امریکا کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ حکومت نے دماغی صحت کے شعبے کو عمومی فنڈ سے ہٹ کر 1.4 بلین شیکل (350 ملین یورو سے زیادہ) کے اضافی وسائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
موجودہ جنگ میں پیدا ہونے والے ڈپریشن اور دماغی دباؤ کی وجہ سے جنگ میں مصروف یہودی فوجیوں اور اُن کی بیویوں کے درمیان ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ کئی ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن میں فوجیوں کی بیویوں نے علیحدگی کے لیے فیصلے طے کر لیے ہیں۔ جس کی ایک وجہ فوجیوں کی اپنی شکست خوردہ ذہنی حالت ہے کہ وہ گھریلو معاملات میں پہلے جیسا تحمل اور سلوک نہیں کر پا رہے۔ دوسری وجہ یہ کہ کئی فوجی مجاہدین کے حملوں کی وجہ سے لنگڑے ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے پاؤں پر چلنے پھرنے کے حوالے سے زندگی بھر کے لیے معذور اور اپاہج ہو گئے ہیں۔
اسرائیل میں جہادِ غزہ کی زوردار ضرب سے پیدا ہونے والے دیگر کئی مسائل کے ساتھ نفسیاتی اور دماغی صحت کے مسئلے نے اسرائیل کو خصوصی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔کئی اسرائیلی فوجیوں کی ایسی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، جن میں وہ اپنی حکومت کے صہیونی عزائم کے خلاف نفرت انگیز الفاظ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ ایک اہل کار نے فوج اور سول حکومت کے افسروں کے سامنے کہا کہ ‘جنگ کے خوف کی وجہ سے رات کو سوتے ہوئے میرا بستر پر ہی پیشاب نکل جاتا ہے۔’ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی قوت و طاقت اور زمینی و فضائی اندھے حملوں کے باوجود میدانِ جنگ سے آدھی سے زیادہ فوج واپس بُلا لی ہے۔ اسرائیل کے ہزاروں فوجی یا تو ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی ہزار ایسے زخمی ہوئے ہیں کہ وہ معذور ہو کر زندگی بھر کے لیے دوسرے کے محتاج ہو گئے ہیں۔
دوسری طرف جانی و مادی طور پر جیسا نقصان فلسطینیوں نے برداشت کیا ہے، تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔ البتہ فلسطینی مسلمانوں کو اس بات کی مبارک باد اُن کا استحقاق ہے کہ وہ ایسی خوف ناک جنگ میں روحانی طور پر پہلے سے بے حد مضبوط ہوئے ہیں۔ بلاشبہ فلسطینیوں کا نفسیاتی پہلو صحت کے اعلی معیار پر قائم ہے۔ لارَیب کہ یہ اسلام کا وہ زندہ معجزہ ہے، جو وہ اپنے ماننے والوں کے لیے ہر جہاد میں ظاہر کر دیتا ہے۔ اسرائیل کو جنگ میں ہونے والے معاشی، مادی، جانی اور دیگر طرح کے کئی نقصانات کے خوف نے صہیونیت کے اعصاب کو شدید اور گہرے صدمے سے شکار کیا ہے۔ درحقیقت اگر قرآن مجید کی نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیل کی شکست کی بڑی وجہ ‘زندگی کی محبت اور موت سے نفرت’ ہے۔ اللہ تعالی نے اِس وجہ کو سورۃ البقرۃ کی آیت 96 میں یوں بیان کیا ہے:
وَلَتَجِدَنَّهُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَيٰوةٍ ج وَ مِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡاج يَوَدُّ اَحَدُهُمۡ لَوۡ يُعَمَّرُ اَ لۡفَ سَنَةٍ ج وَمَا هُوَ بِمُزَحۡزِحِهٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ يُّعَمَّرَؕ وَاللّٰهُ بَصِيۡرٌ م بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ۝
(بلکہ) یقینا تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پالینا اسے عذاب سے دور نہیں کرسکتا۔ اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
سید قطب رحمہ اللہ اِس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
یہود موت کی تمنا اس لیے نہیں کرتے کہ انہوں نے اِس دنیا میں جو کمائی کی ہے ، اِس پر اُنہیں آخرت میں کسی اجر کی توقع نہیں ہے ۔ انہیں اس بات کی بھی امید نہیں ہے کہ وہ عذابِ الٰہی سے بچ سکیں گے۔ اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے اور اُن کی بداعمالیاں بھی اُس کی نظر میں ہیں۔ قرآن کریم یہودیوں کی دوسری خصلت کی ایسی تصویر کھینچتا ہے، جس سے ان کی ذلت، حقارت اور رذالت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے:
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ۔
تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤگے۔
زندگی کیسی ہو، یہود کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہود صرف زندگی چاہتے ہیں ، چاہے وہ ذلت اور حقارت سے لبریز ہو۔ یہود کو عزت اور عافیت سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہی یہود کا ماضی ہے ، یہی حال ہے اور یہی مستقبل کا مطمحِ نظر ہے۔ یہودی صرف اُسی وقت سر اٹھاتے ہیں، جب خطرہ ٹل جاتا ہے۔ جب تک خطرہ سروں پر قائم ہو، وہ سر نہیں اٹھاتے، اُن کی گردنیں جھکی رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ پرلے درجے کے بزدل ہیں۔ اُنہیں زندہ رہنے سے بےحد محبت ہے۔ جیسے آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیلی فوج حماس کی کارروائیوں سے خوف زدہ ہو کر میدان سے بھاگ کھڑی ہوئی ہے۔
قرآن کے الفاظ کے مطابق ہر یہودی یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح ہزار برس زندہ رہ سکے۔ جب کہ ‘ہزار’ کا لفظ لمبی مدت کے لیے صرف ایک تعبیر ہے، جب کہ معنی یہ کہ وہ موت کے بعد خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے ہمیشہ دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ یہود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کے بارے میں کوئی پختہ یقین نہیں ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اس زندگی کے علاوہ بھی کوئی زندگی ہے؟ ظاہر ہے، جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے تو اس پر عرصۂ حیات تنگ ہو جاتا ہے ۔ اسے اپنی دنیاوی زندگی بہت ہی مختصر نظر آتی ہے۔
موت کے ڈر نے یہود کو دنیا کی بزدل ترین قوم بنا دیا ہے۔ اسرائیل موت کے ڈر اور دنیا کی محبت کی وجہ سے قیامت تک مجاہدین کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا۔ اسی لیے اسرائیلی وزارتِ صحت کی طرف سے یہ دُہائی دی گئی ہے کہہ “حماس ہولوکاسٹ جیسے طرزِ قتل کے’ڈر اور خوف ‘ کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہی ہے، جس سے یہودیوں میں موت کے خوف کی وجہ سے ہٹلر کی شخصیت کا تاثر تازہ ہو رہا ہے۔”
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری