عمری آپریشن اور دشمن کی فریاد

    دشمن نے  معمول کے مطابق عمری آپریشن کو   محض پروپیگنڈہ  قرار دیا لیکن   مجاہدین  نے اپنے دوسرے  فیصلوں کی  طرح  اپنے  دعوے کو عمل  سے  ثابت کیا۔دشمن کے سامنے  یہ واضح کیا کہ  ہم  جس  پالیسی کا اعلان کرتے ہیں سب سے  پہلے اس پر عمل کرنے  کے بارے میں سوچتے ہیں  جب […]

 

 

دشمن نے  معمول کے مطابق عمری آپریشن کو   محض پروپیگنڈہ  قرار دیا لیکن   مجاہدین  نے اپنے دوسرے  فیصلوں کی  طرح  اپنے  دعوے کو عمل  سے  ثابت کیا۔دشمن کے سامنے  یہ واضح کیا کہ  ہم  جس  پالیسی کا اعلان کرتے ہیں سب سے  پہلے اس پر عمل کرنے  کے بارے میں سوچتے ہیں  جب ہمیں  اپنے  فیصلے پر عمل  درآمد ہونے کا پور ا یقین ہو  تو  ہم اس کا  اعلان کرتے ہیں۔

مجاہدین کے قول  وفعل میں  آج تک دشمن نے  تضاد  نہیں دیکھا۔ جس دن  عمری آپریشن کا اعلان ہوا اسی دن  مجاہدین نے  ملک کے طول   وعرض میں جارحیت پسندوں اور ان  کے  کاسہ لیسوں  کے مراکز، فوجی   چوکیوں، دفاتر  اور  فوجی قافلوں  تباہ کن  حملے  کیے جس میں دشمن کو  شدید جانی اور مالی نقصانات پہنچے۔

مجاہدین نے    دشمن پر نہ صرف یہ کہ  تباہ کن حملے کیے بلکہ دشمن سے  بہت سے علاقے  اور  اضلاع بھی    چھین لئے۔ صوبہ بغلان کا ڈنڈ شہاب الدین اور ڈنڈ غوری،  فاریاب کا ضلع المار،قیصار،استانہ بابا اور پشتونکوٹ کے  وسیع علاقے اور  ہلمند کا مارجہ،باباجی جیسے اہم اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل  علاقوں کی  فتح  اس کی  چند مثالیں ہیں۔

حالیہ دنوں  قندوز کے قلعہ زال کی فتح اور ضلع دشت ارچی کے مرکز کے علاوہ تمام علاقوں کی فتح اور ہلمند کےضلع سنگین  کی  فتح وہ  عوامل  ہیں جس نے دشمن کو  حواس باختہ کیا ہوا ہے۔

کٹھ پتلی صدر سے لے کر ہلمند کے گورنر تک  سب    اپنے  مغربی آقاوّں کے سامنے  چیختے  چلاتے ہوئے فریاد کرتے ہیں کہ   بموں اور  ڈالروں کی مزید امداد دی جائے۔ آج کابل   کٹھ پتلیوں کی جانب سے  ہلمند کے گورنر  حیات اللہ  نے  جارحیت پسندوں سے  مطالبہ کیا  کہ ان کے عوام پر   بموں کی  بارش کی جائے  ورنہ   وہ مجاہدین کی پیش قدمی  روکنے  میں  ناکام ہوں گے۔

دشمن  یہ  بات  اچھی  طرح جان لے  کہ  غیروں  کے اسلحوں اور  پیسوں سے  ہمارے  مقدس  جہاد کا راستہ  نہیں روکا جاسکتا۔ کیونکہ  مجاہدین  عوام  ہی میں سے ہیں اور   عوام کی  مفاد اور ایک   مقدس  شرعی  نظام کیلئے دن رات ایک کیے  ہوئے ہیں۔

مجاہدین  انتہائی تکالیف ،جیلیں،بھوک اور پیاس   یہاں تک کہ اپنی   جان بھی قربان کرتے ہیں۔ لیکن دینی اقدار اور  ملکی مفادات پر کسی سے  سمجھوتہ   نہیں کرتے ۔

جارحیت  پسند اور  ان کے داخلی  کاسہ لیس  اپنے خلاف  افغان عوام کے مقدس  جہادی   تحریک کے   گذشتہ پندرہ سال پر نظر ڈالیں  اور اس  سے سبق حاصل کریں۔ اگر ان کے خلا ف رواں جہادی   تحریک  میڈیا کے زہریلے  پروپیگنڈوں،ڈالروں،بموں اور راکٹوں  کے ذریعے  روکی جاسکتی  تو یہ  تحریک  پندرہ سال قبل  روک لی جاتی۔

اب جب حالت ان کے  منصوبو  ں  کے بر عکس  نکلی، دشمن کو چاہئے کہ  اپنی  ہٹ دھرمی سے باز آئے۔ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے  افغان عوام سے  معافی  مانگیں۔ اور لوگوں کو  اپنی خواہش کے مطابق امارت اسلامی  کے پرچم  تلے ایک  اسلامی نظام قائم کرنے  دیاجائے  تاکہ افغان عوام  امن  وامان کی فضاء میں اپنے روز مرہ  کا م  انجام دے سکیں۔