عوام غیرملکی و کابل انتظامیہ کے ظلم کا شکار ہیں!

آج کی بات: جارحیت پسندوں اور ان کے کاسہ لیسوں نے جارحیت کے آغاز سے ہی افغان عوام کے قتلِ عام ، تشدد، گرفتاریوں  اور شہری آبادیوں پر بمباریوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ افغانستان کے طول و عرض میں جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے صرف ایک حملے میں 100 سے […]

آج کی بات:

جارحیت پسندوں اور ان کے کاسہ لیسوں نے جارحیت کے آغاز سے ہی افغان عوام کے قتلِ عام ، تشدد، گرفتاریوں  اور شہری آبادیوں پر بمباریوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ افغانستان کے طول و عرض میں جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے صرف ایک حملے میں 100 سے زیادہ شہریوں کی شہادت کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں۔  یہاں تک کہ ان حملوں میں پورے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ یہ  ان  درندہ   صفت قوتوں کی سنگ دلی اور سفاکیت کی واضح دلیل ہے۔

ایک علاقے ’دہراود‘ میں شادی کی تقریب پر بمباری، ہسکہ مینہ میں باراتیوں پر حملہ، قندوز میں آئل ٹینکرز کے قریب جمع شہریوں پر فضائی حملہ، عزیز آباد میں  رسم سوئم کی تقریب پر  بمباری، نوزاد میں دو روزہ میلے پر بمباری، پکتیا میں قبائلی بزرگوں کی گاڑیوں پر ڈرون حملہ ، بالابلوک میں شادی کی تقریب پر حملہ ، خوست میں جنازے کے شُرکا پر ڈرون حملہ ، کنڑ میں اسکول کے بچوں کے اجتماعی قتل  سمیت سیکڑوں ایسے واقعات ہیں، جن میں ہر حملے کے نتیجے میں تقریبا  100 سے زیادہ افغان شہری شہید ہوئے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ یاد رہے یہ صرف وہ واقعات ہیں، جن کا دشمن نے اعتراف کیا ہے۔

اسی طرح بغلان ، فاریاب، سرپل ، ہلمند، قندھار ، غزنی اور ہرات میں  شہریوں پر تشدد، گرفتاریاں، امول لوٹنے، گھروں اور فصلوں کی تباہی  کے متعدد واقعات کابل کٹھ پتلی انتظامیہ اور ان کے مغربی آقاؤں کے آپریشنز میں پیش آچکے ہیں۔جن میں مظلوم  عوام کو بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔

مظلوم عوام کے قتلِ عام، اُن کی گرفتاریوں اور تشدد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ افغانستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا، جس میں عوام غیرملکی جارحیت پسندوں یا ان کی کٹھ پتلیوں کے ظلم کا نشانہ نہ بنتے ہوں۔ یہاں مزید وضاحت کے لیے صرف گزشتہ ماہ  کے دوران غیرملکیوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے مظالم کی چند مثالیں دی جا رہی ہیں:

7  اگست کو صوبہ بادغیس کے ضلع مرغاب  کے نواحی علاقے میں کٹھ پتلی اہل کاروں نے اپنی چوکی سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جیخو نامی گاؤں پر مارٹر گولے پھینکے، جس کے نتیجے میں 3 شہری شہید، جب کہ 6 زخمی ہوئے۔

12 اگست کو صوبہ پکتیکا کےضلع خوشامند کے میناری گاؤں پر غیرملکی جارحیت پسندوں کے فضائی حملے میں ایک ہی خاندان کے 13 افراد شہید ہوئے۔ یہ حملہ علاقے کے ایک ڈاکٹر کے گھر پر کیا گیا، جس میں ڈاکٹر سمیت ان کے خاندان کے دیگر 12 افراد شہید ہوئے تھے۔ مقامی افراد نے افغان اسلامک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ حملے میں شہید ہونے والے تمام افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔  پکتیکا کی صوبائی کونسل کے ارکان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ حملہ ایک عام شہری کے گھر پر کیا گیا  تھا۔

15 اگست کو صوبہ ننگرہار کے ضلع غنی خیل میں اربکی ملیشیا کی فائرنگ کے نتیجے میں 6 شہری زخمی ہوگئے۔ اسی دن صوبہ بغلان کے ضلع دہنہ غوری میں بازار کے قریب امریکی کاسہ لیسوں کی بمباری میں ایک خاندان کے 5 پانچ افراد شہید ہوگئے۔

17 اگست کو صوبہ ننگرہار کے ضلع چپرہار کے علاقے ہدیاخیل میں غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلی اہل کاروں نے چھاپہ مار کر 7 افراد کو گرفتار کر لیا۔

18  اگست کو صوبہ قندوز کے ضلع دشت ارچی میں ’رئیس عبداللہ‘ نامی گاؤں  میں غیرملکی جارحیت پسندوں نے کٹھ پتلی اہل کاروں کی مدد سے چھاپہ مارا، گھرگھر تلاشی اور لوگوں پر تشدد کے بعد 7 افرادکو گرفتار کر کے ساتھ لے گئے۔

19 اگست کو صوبہ قندوز کے ضلع چہاردرہ میں ’سجانیوں‘ اور ’قریہ یتیم‘ نامی علاقوں  میں کٹھ پتلی فورسز کی بمباری میں دو شہری شہید، جب کہ ایک خاتون زخمی ہو گئیں۔

20اگست کو صوبہ میدان وردگ کے  مرکز  کے قریب ’خروٹی‘ نامی گاؤں  میں کٹھ پتلی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں میاں بیوی شہید، جب کہ ان کا ایک بچہ زخمی ہوا ہے۔

20  اگست کے ایک اور واقعے میں میدان وردگ کے ضلع سیدآباد  کے سیسی نامی گاؤں میں کاسہ لیس اہل کاروں نے ان انجینئرز پر حملہ کیا، جو علاقے میں بجلی کے کھمبے لگانے کے کام پر مامور تھے۔ حملے میں ایک انجینئر شہید اور ایک زخمی ہو گیا۔

22 اگست کو صوبہ غزنی کے ضلع قرہ باغ  کے ’پیرو ‘ گاؤں میں کٹھ پتلی اہل کاروں کے مارٹر گولے  سے ایک شخص ’محمد ایاز آکا‘ اور ا ن کا جواں سال بیٹا شہید ہوگئے۔

29 اگست کو صوبہ قندوز  کے قریب لوئی کنم کے علاقے میں غیرملکی جارحیت پسندوں  اور ان کی کٹھ پتلیوں نے چھاپے کے دوران گھروں کے دروازے بموں سے اڑادیے۔ لوگوں پر تشدد کیا۔ ان کے اموال لوٹے اور آخر میں گاؤں کے امام مسجد سمیت 13 افراد کو گرفتار کر کے ساتھ لے گئے۔

13 اگست کو قندوز کے مرکز سے ملحق ملرغی کے علاقے میں کٹھ پتلی اہل کاروں کی دیسی توپ کے ایک حملے میں 4 افراد شہید ہوگئے۔ واقعے کے بعد لوگوں نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

عوامی نقصا نات کے مذکورہ واقعات صرف اگست میں پیش آئے ہیں۔ یہ غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے وحشی مظالم کی چند مثالیں تھیں، جو منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ افغان عوام غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے وحشیانہ ظلم و ستم کا شکار ہیں۔