غیرملکی و افغان فوجی عوام کے دشمن ہیں

آج کی بات:   جارحیت پسند اور ان کی افغان کٹھ پتلیاں مشترکہ طور افغانستان کے مختلف علاقوں میں شہریوں پر بم برسا کر عوام کے گھر ملیامیٹ کر رہے ہیں۔ رات کو سرچ آپریشن کے نام پر بچوں اور عورتوں پر تشدد  کیا جاتا ہے اور عوام کو قتل کرنے علاوہ قیمتی املاک کی […]

آج کی بات:

 

جارحیت پسند اور ان کی افغان کٹھ پتلیاں مشترکہ طور افغانستان کے مختلف علاقوں میں شہریوں پر بم برسا کر عوام کے گھر ملیامیٹ کر رہے ہیں۔ رات کو سرچ آپریشن کے نام پر بچوں اور عورتوں پر تشدد  کیا جاتا ہے اور عوام کو قتل کرنے علاوہ قیمتی املاک کی لوٹ رہے ہیں۔ جارحیت پسندوں اور ان کے افغان غلاموں کی جانب سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بمباریوں اور چھاپوں سے عوام کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ صرف گزشتہ چند دنوں میں درجنوں عام شہری جارحیت پسندوں اور ان کے کاسہ لیسوں کے مختلف حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔

گزشتہ روز پکتیکا کے ضلع خوشامند کے میناری گاؤں پر جارحیت پسندوں نے فضائی حملہ کیا، جس میں 13 عام شہری شہید ہوگئے۔ یہ حملہ علاقے کے ایک مشہور ڈاکٹر ‘وریشمین’ کے گھر پر ہوا، جس میں وہ اپنے خاندان کے 13 افراد سمیت شہید ہوئے ہیں۔ مقامی افراد نے افغان اسلامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ حملے میں شہید ہونے والے تمام افراد عام شہری ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ پکتیکا میں چند کٹھ پتلی حکام نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس امریکی حملے میں نشانہ بننے والے سب عام شہری تھے۔ اسی طرح جارحیت پسند اور ان کے داخلی غلاموں نے اپنے جرائم کے سلسلے میں یکم اگست کو میدان وردگ کے مرکز میں ایک اسکول ٹیچر ‘محمد شفیق’ کو شہید کیا، جو کچھ عرصہ قبل ضلع نرخ سے نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ 2 اگست کو صوبہ کاپیسا کے ضلع تگاب سے ملحق ‘جویبار’ کے علاقے میں کٹھ پتلی دشمن اور جارحیت پسندوں نے مشترکہ طور پر عام شہریوں کے گھروں پر بلا اشتعال فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دو خواتین زخمی ہوگئیں۔ 4 اگست کو زابل کے ضلع میزانہ کے علاقے ناوہ میں کٹھ پتلی اہل کاروں نے عام آبادی پر مارٹر گولے فائر کیے،جو ایک گھر پر گرے، جس میں ایک بچہ شہید اور دو زخمی ہوگئے۔ 7 اگست کو صوبہ بادغیس کے ضلع مرغاب کے نواحی علاقے میں امریکی کاسہ لیسوں نے اپنی چیک پوسٹ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ‘جیخوجی’ پر ماٹر گولے پھینکے، جس کے نتیجے میں 3 شہری شہید اور 6 شدید زخمی ہوگئے۔ 8 اگست کو صوبہ خوست کے ضلع سپیری سے ملحق غورمی اڈہ، بوزی اور تنی خیل دیہات  پر کٹھ پتلی اہل کاروں نے چھاپہ مارا، جہاں انہیں  مجاہدین کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران بزدل دشمن نے ایک مرتبہ پھر اپنی توپوں کا رخ عام شہریوں کی طرف پھیر دیا، جس کے نتیجے میں 3 شہری شہید اور 6 زخمی ہوگئے۔ اسی طرح وحشی اہل کاروں نے کئی دیہاتوں سے بڑی تعداد میں عام شہریوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ 12 اگست کو میدان وردگ کے  ضلع جلگی  سے ملحق ‘احمد خیل گاؤں’ میں بھی وحشی غلاموں نے ایک شہری مستو خان کو شہید کیا، جو اپنے کھیتوں میں کام میں مصروف تھا۔ 13 اگست کو صوبہ لوگر کے ضلع محمد آغی  سے ملحق زرغون شہر کے دامن کوہ گاؤں میں کٹھ پتلی ادارے کے وحشی اہل کاروں نے راکٹ فائر کیے۔ اس حملے کے نتیجے میں سیدجان نامی شخص کے خاندان کا ایک بچہ اور ایک خاتون شہید ہوگئے۔

عام شہریوں کی مذکورہ اموات کے واقعات گزشتہ دو ہفتوں کے دوران  پیش آئے ہیں۔ حالیہ دنوں  میں جارحیت پسندوں اور کٹھ پتلیوں نے مشترکہ طور پر ایک مرتبہ پھر فضائی حملوں اور چھاپوں میں تیزی لائی ہے۔ جس میں ہمیشہ عام شہریوں کو جانی اور مالی نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے حواری یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اس قسم کے ظلم و جبر سے افغان عوام کی جہادی جدوجہد کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ستم و وحشت ہی مسئلے کا حل ہوتا تو گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں  اپنے مذموم مقاصد آسانی سے حاصل کر سکتے تھے۔ امارت کے مجاہدین نے عہد کیا ہے کہ اپنے مظلوم عوام کا انتقام  امریکا اور اور اس کی کٹھ پتلیوں سے ضرور لیا جائے گا۔ اُنہیں افغانستان میں سکھ کا سانس لینے نہیں دیا جائے گا۔ مجاہدین اپنی جہادی کارروائیاں  افغانستان  سے غیرملکی جارحیت پسندوں کے مکمل انخلا اور  اسلامی نظام کے نفاذ تک  جاری رکھیں گے۔