کابل

فلسطین کی فتحِ مبین

فلسطین کی فتحِ مبین

 

محمد افغان

فلسطین کا معاملہ مسلم اُمّت کے لیے ایک گہرا سبق ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ “مسلمان خود کی کوشش و جدوجہد سے یہ سبق سیکھ لیتے ہیں یا قدرت کا فطری قانون اپنے کارکنانِ قضا و قدر کو حرکت میں لا کر مسلمانوں کو اس نہج و منہج پر چلا کر سبق سکھاتا ہے۔” اِس فلاسفی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے ہمیشہ یہ امید و گمان اور یقین رکھتے ہیں کہ وہی ذات مسلمانوں کا پہلا و آخری سہارا ہے۔ اُس کے ارادے و حکم کے بغیر کوئی پتّہ بھی حرکت نہیں کر پاتا۔ دنیا کا تمام نظام اُس کی منشا و رضا کے مطابق چل رہا ہے۔ کسی کو عُروج کا میٹھا پھل ملتا ہے تو کوئی زوال کی تُرشی و کرواہٹ برداشت کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورۂ آلِ عمران کی آیت 140 میں مذکور ہے:
وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ۝
یہ تو آتے جاتے دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالی قوموں کے حالات بدلتے ہیں تو تبدیلیِ حالات کے اسباب میں تین بنیادی عوامل (١)نظریے کا خالص پن، (٢)معیاری اعمال (٣) اوربے تھکان جدوجہد حرکت کر رہتے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کے مذکورہ فرمان کے ساتھ ایک اَور آیت بھی ملائیں تو آئندہ کی بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ سورۂ اَنفال کی آیت 53 میں ارشادِ باری تعالی ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ لا وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝
یہ سب کچھ اِس لیے ہوا کہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ اُس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو، اُسے اُس وقت تک بدلنا گوارا نہیں کرتا، جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت تبدیل نہ کر لیں اور اللہ ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔
اوّلاً یہاں برسبیلِ تذکرہ یہ جان لینا چاہیے کہ عموماً معاشرے میں مذکورہ آیت کا درج بالا مفہوم اُلٹ کر کے بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ اِس طور کہ “اللہ تعالی تب تک لوگوں کے بُرے حالات کو اچھے حالات سے نہیں بدلتے، جب تک لوگ خود اچھے حالات کی کوشش نہیں کرتے۔”
یعنی لوگوں نے بُرے حالات کو بائے ڈیفالٹ یا فطری حالت سمجھ لیا ہے اور آیت کے تناظر کو اپنے اِس فہم پر چسپاں کر تے ہیں۔ البتہ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، اللہ تعالی نے لوگوں کی فطری یا بائے ڈیفالٹ حالت ‘اچھی حالت’ کو قرار دیا ہے۔ یہی وہ حقیقی و درست فہم ہے، جو قرآن اپنے پیروکاروں کو سونپ رہا ہے۔اِسی قرآنی فہم پر مذکورہ ترجمہ ہمیں بائے ڈیفالٹ حالت سمجھا رہا ہے کہ انسانوں یا قوموں کی فطری حالت عروج، استحکام اور عمدہ اخلاق و اعمال کی ہے۔
اب دونوں آیات کو باہم ملا کر اس کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
پہلی آیت کا ترجمہ: یہ تو آتے جاتے دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔
دوسری آیت کا ترجمہ: یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ اُس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو، اُسے اُس وقت تک بدلنا گوارا نہیں کرتا، جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت تبدیل نہ کر لیں اور اللہ ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔
دونوں آیات سامنے رکھنے پر یہ بات واضح ہوئی ہے کہ کسی بھی انسان یا قوم کی فطری حالت عروج و ترقی ہے اور کسی بھی قوم کی ترقی و عروج کو تب تک زوال پذیر نہیں بنایا جاتا، جب تک وہ قوم خود اپنی ترقی سے منہ نہیں موڑ لیتی۔
یہاں دیکھنے و سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی قوم کو آخرت کے تناظر میں بائے ڈیفالٹ ایسی ترقی کیسے حاصل ہوتی ہے، جس کا دوسرا سِرا جنت کے دروازے کے ساتھ بندھا ہوا ہے؟ یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ خالقِ کائنات کی طرف سےقوموں کی ترقی میں آخرت کا تناظر ایک بائے ڈیفالٹ سسٹم ہے، جس کا انکار ایسے ہی نہیں کیا جا سکتا، جسے کوئی بھی انسان موت کا انکار نہیں کر سکتا۔ لہذا ترقی و تنزلی اور عروج و زوال کے حوالے سے تمام اُتار چڑھاؤ کسی بھی قوم کے مذکورہ بالا تین عناصر “نظریے کے خالص پن، معیاری اعمال اور بے تھکان جدوجہد” کی بنیاد پر ہوتا ہے۔جب بھی قوم کے عقیدے، اعمال اور جدوجہد میں ملاوٹ پیدا ہو جائے اور ان کی بنیادوں میں کھوٹ آ جائے، تب ہی اُس قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ چوں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہم اللہ تعالی کی ذاتِ اقدس کو مطلوب خالص اسلام کے نکتۂ نظر سے عقیدے، عمل اور جہاد کی اَہمیت سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن میں یہود (بنی اسرائیل) کی اچھی حالت کا باربار تذکرہ کیا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت 47 میں مذکور ہے:
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ۝
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو، جو مَیں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ مَیں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
جب کہ آیت 49 اور 50 میں یہود کی نعمتوں والی حالت کو تفصیلاً یوں بیان کیا گیا ہے:
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ ط وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۝
اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی، جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس ساری صورتِ حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝
اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا، چناں چہ تم سب کو بچا لیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے۔
جب اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو اُن کے انبیاء کی محنت و دعوت کے سبب بائے ڈیفالٹ حالت کے طور پر یہ نعمتیں عطا فرمائی تھیں تو بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کو بُھلا دیا اور بُری حالت اختیار کر لی۔ اُنہوں نے بدترین بدعقیدگی اختیار کر لی۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے یہود نے حضرت عُزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دے دیا۔ اور بنی اسرائیل کے نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دے دیا۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کی یہ دونوں بدعقیدگیاں قرآن کی سورۂ توبہ کی آیت 30 میں یوں بیان کی ہیں:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللہِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللہُ ۚ أَنّٰی يُؤْفَكُونَ۝
یہودی تو یہ کہتے ہیں کہ (حضرت) عُزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی یہ کہتے ہیں کہ (حضرت) مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب اُن کی منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ یہ ان لوگوں کی سی باتیں کر رہے ہیں، جو ان سے پہلے کافر ہو چکے ہیں۔ اللہ کی مار ہو ان پر ! یہ کہاں اُوندھے بہکے جا رہے ہیں؟
اِنہی بنی اسرائیل نے بدترین اعمال اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالی کے احکامات سے منہ موڑا، بلکہ ایسا رویّہ اختیار کیا کہ وہ منہ موڑنا درحقیقت شریعت کے ساتھ مذاق تھا۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت 65 میں مذکور ہے:
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ۝
اور تم اپنے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہو، جو سنیچر (سبت) کے معاملے میں حد سے گزر گئے تھے۔ چناں چہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم دُھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
اس واقعے کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ یہودیوں کو (سَبْتٌ) ہفتے کے دن مچھلی کا شکار، بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ مگر انہوں نے دنیا کے لالچ میں اندھے ہو کر اللہ کے احکامات کی کوئی پروا نہ کی اور ایک حیلہ اختیار کر کے حکمِ الٰہی سے تجاوز کر لیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں، انہوں نے گڑھے کھود لیے، تاکہ مچھلیاں اُن میں پھنسی رہیں۔ پھر اتوار کے دن انہیں پکڑ لیتے۔
اللہ تعالی کے حکم کے ساتھ اس قدر گھناؤنے مذاق پر اللہ تعالی نے اُنہیں انسانیت کی معراج سے اُتار کر ذلیل بندر بنا دیا۔
بنی اسرائیل نے عقیدے اور عمل کے اس بگاڑ کے علاوہ بہتر سے بہتر اور عزت کی معراج پر قائم رہنے کی جدوجہد کے حوالے سے بدترین رویّہ ظاہر کیا۔ قرآن مجید اس کی مثال سورۂ مائدہ کی آیت 24 میں یوں بیان کرتا ہے:
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ۝
وہ (بنی اسرائیل) کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے۔ (اگر اُن سے لڑنا ہے) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ اور اُن سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
تفسیر ابنِ کثیر کے حوالے سےاس واقعے کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ بنواسرائیل کے مُورثِ اعلیٰ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن بیت المقدس تھا، لیکن یہ حضراتِ محترم اللہ تعالی کے پیغمبر سیدنا یوسف علیہ السلام کے مصر میں اقتدار کے زمانے میں وہاں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ بنی اسرائیل تب سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام کے وقت تک مصر ہی میں رہے۔ بعدازاں حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں فرعون سے بچانے کی خاطر مصر سے نکال لے گئے۔ اُس واپسی کی ہجرت کے وقت بیت المقدس پر عمالقہ نامی قوم کی حکمرانی تھی۔ جب کہ عمالقہ بظاہر ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لیے وہاں قابض قوم عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چناں چہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرتِ الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ اس کے باوجود بنی اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ صرف یہ نہیں کہ بنی اسرائیل نے جہاد اور جدوجہد سے انکار کر دیا، بلکہ مزید بدبختی ظاہر کرتے ہوئے گستاخانہ لہجہ اختیار کیا کہ “اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے۔ (اگر ان سے لڑنا ہے) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔”
بنی اسرائیل کے یہ وہ تین بنیادی عناصر تھے۔ اوّل یہ کہ بدعقیدگی اختیار کی۔ دوم یہ کہ بدعملی کا رویّہ اپنایا۔ سوم یہ کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے وعدوں کے باوجود جدوجہد اور جہاد سےمنہ موڑ لیا۔ جس کی وجہ سے اُن پر پھٹکار ڈال دی گئی۔ نتیجہ یہ کہ بنی اسرائیل آج تک بطور ذلیل ترین قوم زندگی گزار رہے ہیں۔ گویا قرآن کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی اچھی حالت کو خود تبدیل کیا، جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے اُن کی نعمتوں والی حالت کو خستہ حالت سے بدل دیا۔
بنی اسرائیل کے برعکس جب نبیِ اکرم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کی جدوجہد شروع فرمائی تو پہلی ترجیح کے طور پر امت کے شرکیہ عقائد کو ختم کر کے عقیدۂ توحید پروان چڑھایا گیا۔ نظریے کو خالص بنایا گیا۔ اخلاق کو عمدہ کیا گیا۔ دوسری ترجیح کے طور پر اعمال کا نہج درست کیا گیا۔ معاشرتی گراوٹیں ختم کر کے پاک و صاف اعمال کی بنیاد رکھی گئی۔ رہنے سہنے کا طریقہ اور باہمی معاملات کے لیے لائحۂ عمل دیا گیا۔ تیسری ترجیح کے طور پر ترقی پر قائم رہنے کے لیے غزوۂ بدر سے جدوجہد کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلمانوں نے عقیدے کی درستی اور عمل کی اصلاح کے بعد جہاد کے لیے وہ قابلِ فخر رویّہ ظاہر کیا، جسے حدیث کی مشہور کتاب صحیح بخاری کے صفحات نے یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:
جب جنگِ بدر کے موقع پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلتِ تعداد و قلتِ وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لیے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا:
یارسول اللہ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے، جس طرح قومِ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیغمبر کو کہا تھا کہ “اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے۔ (اگر ان سے لڑنا ہے) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔”
جب یہ تین مرکزی اور بنیادی عناصر قوم میں رچ بس گئے، تب اُن عناصر نے عرب کے جاہل و پست معاشرے کو قابلِ فخر قوم بنا دیا۔ وہ قوم اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آ گئی اور اس قدر طاقت وَر ہو گئی کہ خیبر سے یہودیوں کے در و دیوار تک کو جڑ سے اُکھاڑ دیا۔ روم سے قیصر اور فارس سے کسریٰ کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ یعنی اُن قوموں کو تہس نہس کر دیا، جنہوں نے اللہ کی زمین پر فساد برپا کر رکھا تھا۔
یہاں یہ نکتہ بھی توجہ کے لائق ہے کہ اللہ تعالی کی نصرت خالصۃً مسلمانوں کا حق ہے۔ یہ اس طور کہ قرآن مجید نے سورۂ محمد کی آیت 7 اور سورۂ آلِ عمران کی آیت 147 میں مسلمانوں کو نصرتِ ربّانی کے حوالے سے یہ تعلیم دی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللہَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۝ (سورۂ محمد: 7)
اے ایمان والو ! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم جما دے گا۔
وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۝ (سورۂ آلِ عمران: 147)
ان (مومنین) کے منہ سے جو بات نکلی، وہ اس کے سوا نہیں تھی کہ وہ کہہ رہے تھے: ہمارے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بھی اور ہم سے اپنے کاموں میں جو زیادتی ہوئی ہو، اس کو بھی معاف فرما دے۔ ہمیں ثابت قدمی بخش دے اور کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرما دے۔
جب یہ واضح ہو گیا کہ نصرتِ ربانی صرف مومنین کا حق ہے تو کسی بھی آزمائش کے موقع پر بعض اوقات اللہ تعالی کی طرف سے وہ نصرت، جسے ‘فتحِ مبین’ کہا جاتا ہے، اُس کے نزول میں تاخیر اس حکمت کے تحت ہوتی ہے، تاکہ اللہ تعالی اُس آزمائش کے ذریعے کھرے کھوٹے کی پہچان واضح کر دے۔ اور مخلصین کے گروہ سے منافقین کو ظاہر کر کے باہر نکال دے۔ جب چھانٹی ہو جاتی ہے، تب اللہ تعالی کی طرف سے فتحِ مبین نازل ہو جاتی ہے۔ پھر مخلص مومن اس فتحِ مبین یعنی نصرتِ الہی سے خوف مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فتحِ مکہ کے موقع پر سورۂ فتح کی پہلی 4 آیات میں فرمایا ہے:
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لا۝ لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا لا۝ وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا۝ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ ط وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا لا۝
(اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کھلی ہوئی فتح عطا کر دی ہے۔ تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کر دے اور تاکہ اپنی نعمت تم پر مکمل کر دے اور تمہیں سیدھے راستے پر لے چلے۔ اور (تاکہ) اللہ تمہاری ایسی مدد کرے، جو سب پر غالب آ جائے۔ وہی ہے، جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکینت اُتار دی، تاکہ ان کے ایمان میں مزید ایمان کا اضافہ ہو۔ اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
افغانستان میں فتحِ مبین کے لیے 20 سال کی محنت خرچ ہوئی ہے۔ عقیدوں کی اصلاح، اعمال کی درستی اور جدوجہد کا بے تھکان سفر۔ جب منافقین خزاں کے پتوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گِر گئے، تب اللہ تعالی نے صرف مسلمانوں کو عزت بخشنے کے لیے فتحِ مبین نازل فرما دی۔ اللہ تعالی سورۂ منافقون کی آیت 8 میں فرماتے ہیں:
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ج۝
حالانکہ عزت تو اللہ ہی کو حاصل ہے اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو، لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔
بہت سے نام نہاد مسلمان افغان جہاد کے پسِ پردہ محنت اور افغانستان کی فتح کا کریڈٹ لینے کی بے انتہا کوششیں میں تھے، مگر اللہ تعالی نے حقیقی عزت میں منافقین کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا ہوا۔ لہذا وہ ناکام و نامُراد ہو گئے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اُنہیں دُھتکار دیا۔ فلسطین کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔ سورۂ یوسف کی آیت 21 میں واضح ہے:
وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝
اور اللہ کو اپنے کام پر پورا قابو حاصل ہے، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
البتہ تقسیم در تقسیم کے دُکھ کے باوجود انفرادی ہی سہی، مگر اِن محنتوں کی بنیاد پر مذکورہ تینوں عناصر کی موجودگی سے انفرادی حالات تو اچھے ہو جائیں گے، البتہ یہ منتہائے مقصود نہیں ہیں۔ نقطۂ منتہا پانے کے لیے تمام اُمّتِ مسلم کو منہجِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنا ہوگا۔ ورنہ فلسطین کی حد تک حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ افغانستان کی حد تک حالات بہتر ہو جائیں گے۔ مگر اِن کا تمام مسلم دنیا پر اثر مرتب ہو، اِس کے لیے تمام مسلم دنیا کو ایک پرچم تلے جمع ہونا ہوگا۔ ایک ہی عقیدہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایک ہی عمل اپنانا ہوگا۔ ایک ہی جدوجہد پر چلنا ہوگا۔ انفرادی مفادات کے بجائے مجموعی مفادات کو توجہ دینا ہوگی۔