قاری عبداللہ معراج شہید تقبلہ اللہ حیات اور کارناموں پر ایک نظر

قاري سعید خوستی   پیدائش اور ابتدائی زندگی الحاج قاری عبداللہ شہید صوبہ خوست کے مرکز کے مضافاتی علاقے شمل پیرانو کے ایک دیندار گھرانے میں 1398ھ کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوں میں حاصل کی ۔ قرآن کریم حفظ اور تحوید کی تعلیم خوست کے ممتاز قاری محمد انور شاہ سے […]

قاري سعید خوستی

 

پیدائش اور ابتدائی زندگی

الحاج قاری عبداللہ شہید صوبہ خوست کے مرکز کے مضافاتی علاقے شمل پیرانو کے ایک دیندار گھرانے میں 1398ھ کو پیدا ہوئے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوں میں حاصل کی ۔ قرآن کریم حفظ اور تحوید کی تعلیم خوست کے ممتاز قاری محمد انور شاہ سے مکمل کی ۔ انہوں نے نوجوانی کے ابتدائی ایام میں خوست شہر میں ایک چھوٹی سی دکان بنائی تھی جس سے وہ اپنے رزق حلال کا بندوبست کرتے۔

جارحیت پسندوں کے خلاف جہاد:

2001 میں جب امریکا نے خوست کے مٹہ چینہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں ایک مسجد پر بمباری کرکے تراویح کے دوران اسے تباہ کرڈالا اور وہاں 80 سے زیادہ نمازیوں کو شہید کرڈالا۔ اسی واقعہ نے قاری صاحب کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا اور انہوں نے جارح قوتوں کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کردیا۔ انہوں نے جہاد کے اس سفر میں بہت کھٹن مراحل طے کیے اور بہت تکلیفیں اٹھائیں اور دشمن کو بھی بہت دندان شکن جواب دیے۔

قاری صاحب نے قاری بختور خان کی شہادت کے بعد ان کے جہادی محاذ اور گروپ کی قیادت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی ۔ وہ ایک بہادر ، نڈر ، مضبوط اور رحم دل قائد تھے

قاری صاحب کے جہادی کارنامے:

صوبہ خوست کا صحراباغ عسکری اڈہ جسے جارحیت پسند سالارنو اڈہ کہتے ہیں، افغانستان کے جنوب میں امریکی فوجیوں کے مضبوط اڈوں میں سے تھا۔سالارنو اڈے ہی سے ڈرون حملے کنٹرول کیے جاتے تھے، وہ جو ہزاروں مجاہدین کی شہادت کا باعث بنے تھے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ نے حافظ بدرالدین حقانی کے ساتھ مل کر اس امریکی مرکز پر حملوں کی منصوبہ بندی کی ، بہت کم وقت میں حملے کی ساری تیاری مکمل کرلی گئی ، فدائی مجاہد مولوی شمس اللہ شہید کی جانب سے ڈاینا گاڑی کے ذریعے پہلے بہت بڑا دھماکا کیا گیا اور اس کے بعد دس فدائی مجاہدین کیمپ میں داخل ہوگئے اور وہاں جارحیت پسندوں پر حملوں کا آغاز کردیا۔یہ کامیاب حملہ جس نے امریکی جنرلوں کو لرزا کر رکھ دیا۔ پہلے مرحلے میں جارحیت پسندوں نے اپنی عادت کے مطابق حملے کے سرسری نقصانات کاتذکرہ کیامگر کچھ روز بعد امریکی میڈیا نے اس حملے پر تفصیلی روشنی ڈالی ، نیویارک ٹائم کے مطابق اس حملے میں 150 امریکی زخمی اور درجنوں اہلکار ہلاک ہوگئے۔ مال بردار طیارے تباہ ہونے کی وجہ سے امریکا کو ملینوں ڈالر کانقصان ہوا۔

قاری صاحب شہید رحمہ اللہ نے لکنو شینیکی کے علاقے میں فدائی مجاہد عبداللہ شہید کے لیے امریکی کانوائے پر حملے کا منصوبہ ترتیب دیا اس بہادرانہ حملے میں دوٹینک جل کر راکھ ہوگئے اور اس میں موجود تمام فوجی ہلاک ہوگئے۔

قاری عبداللہ شہید نے بدی خیل کے علاقے میں استشہادی مجاہد رحمن اللہ کو حملے کے تمام ابتدائی تیاری کرائی ، فدائی مجاہد نے اپنی گاڑی کے ذریعے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا جس میں ایک بہت بڑا ٹینک شعلوں میں جل کر راکھ ہوگیا۔

قاری صاحب کی زیر قیادت مجاہدین نے امریکی فوجیوں پر دور ہی سے کنٹرول کیے جانے والے بارودی سرنگ سے بہت سے حملے کیے۔

امریکی فوجی برگڈال کا کامیاب تبادلہ:

قاری عبداللہ معراج شہید نے امریکی فوجی برگڈال کے تبادلے کے مراسم بہت کامیابی سے پورے کیے ، وہ کارروائی جس نے پانچ بڑے رہنماوں کو نئی زندگی دلادی اور گوانتانامو کے وحشی جیل سے پانچ رہنماوں کی آزادی کے سبب بنے۔

خاندان کے دیگر شہداء:

قاری صاحب شہید کی قیادت میں ان کے خاندان کے 84 مجاہدین ساتھیوں شہادت کا جام پیا اور اپنی روحیں پاک ذات کی بارگاہ میں پیش کردیں۔

11 اگست 2011 کو معراج موسی قاری صاحب کے چھوٹے بھائی دشمن کے ساتھ ایک براہ راست جنگ میں شہید ہوگئے ۔ 5دسمبر 2015 کو ان کے ایک اور بھائی رفیق بھی دشمن کے ساتھ ایک لڑائی میں شہید ہوگئے۔

شہادت:

2مارچ 2017 کو ان شہداء کی ماں کو تیسرے بیٹے کی شہادت کی بشارت بھی مل گئی ۔ قاری صاحب خوست اور کورمی کے سرحدی علاقے میں جہادی سفر پر تھے کہ امریکی ڈرون طیاروں کے نشانہ بن گئے اور شہید ہوگئے ۔ نحسبہ کذالک والله حسیبہ