کابل

لاشوں کا تاجر اسرائیل

لاشوں کا تاجر اسرائیل

خزیمہ یاسین

اسرائیل نے ظاہری و مادی طور پر فلسطین کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے، اُس کا انتقام ہرگز بھُلانے کے قابل نہیں ہے۔ اگرچہ اس انتقام کا مطمحِ نظر اسلامی اَساس و نظریہ ہے، مگر یہ اسرائیل کے خاتمے تک جاری رہنے والا بدلہ ہے۔ اسرائیل مسلمانوں، خصوصا فلسطینیوں کا صرف ایک متعصب فریق ہی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک خسیس دشمن ہے، جس کی رُوح میں دجل و نفرت رَچ بس گئے ہیں۔ وہ اپنا صہیونی مفاد حاصل کرنے اور فریقِ مخالف کے دلوں میں اپنا گھٹیا رُعب بٹھانے کے لیے انسانیت سے گِرے ہوئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔
اسرائیل کی اندھادھند بمباری اور بے دریغ قتلِ عام نے یہود کی حواس باختگی پر مُہرِ شکست ثبت کر دی ہے۔ تمام دنیا میں اسرائیل کو مسلم و کافر کی تمیز کے بغیر جیسے احتجاج اور نفرت کا سامنا ہے، جس نے اسرائیل کو پاگل پن کے مرض میں مبتلا کر دیا ہے۔ بجائے یہ کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور فلسطینیوں کو اُن کا حق واپس کرے، وہ جنگ میں ایسے گھناؤنے اور کریہہ افعال انجام دے رہا ہے، جس نے یہود کی ازلی بدبختی اور ذلت و رسوائی کو مزید واضح کر دیا ہے۔
چند دن پہلے یہ خبر عام ہوئی تھی کہ اسرائیل نے پناہ گزین کیمپوں سے بے آسرا فلسطینیوں کو اغوا کر کے اُنہیں شہید کر دیا ہے۔ جب کہ اُن شہدا کے اجسام اِس حالت میں واپس کیے گئے کہ اُن جسموں سے آنکھیں اور گُردے وغیرہ جیسے اعضا نکالے گئے تھے۔ یہ اسرائیل کی وحشیانہ حرکت کم نہیں تھی کہ اب اسرائیل نے مشرقی غزہ کے علاقے الطفہ کے قبرستان سے شہدا کے تقریباً 150 جسم چوری کر لیے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اسرائیل کی سب سے آخری 80 لاشوں کی چوری سامنے آئی ہے۔ جب کہ اسرائیل کی یہ گھٹیا ترین چوری کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ یہ مذموم ترین حرکت پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے۔ اسرائیل نے الطفہ قبرستان کو بلڈوز کرنے کے بہانے لاشیں چُرائی ہیں۔ اِس ملعون جنگی مخالف سے کون توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ پہلے کی طرح اِن چوری شدہ جسموں کے بھی اہم اعضا نکال کر لاشوں کا بیوپار نہیں کرے گا؟ لاشوں کے تاجر اسرائیل جیسا ذلیل ملک اور قوم اِس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اُسےمیتوں اور قبروں تک کا کوئی احترام نہیں ہے۔ کفن چور کی کہانیاں تو بہت مشہور ہیں۔ یہ لاش چور کا اعزاز صرف یہود کے حصے میں آیا ہے۔
حماس نے اِس پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے:
“یہ گھناؤنا جرم اس فاشسٹ فوج کی سربریت کا اعلان ہے۔ ہم دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی مذمت کریں۔ وہ قابض فوج کے بڑھتے ہوئے جرائم کو بے نقاب کریں اور اُسے لگام ڈالیں۔”
یہود کا قبروں سے جسم چُرانے کا یہ کام نیا نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد، بغض اور دشمنی کی وجہ سے یہی گھناؤنا کام 557 ہجری میں بھی کیا تھی۔ جب دو ملعون یہودیوں نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اطہر چُرانے کی گھٹیا کوشش کی تھی۔ علامہ علی بن عبد الله السمہودی رحمہ اللہ نے یہ واقعہ اپنی کتاب ‘خلاصۃ الوفا باخبار دار المصطفى’ کی جلد 2 کے صفحہ 175 میں نقل کیا ہے۔
یہ ناپاک سازش 557 ھ میں مرتب کی گئی تھی۔ اُس وقت حجازِ مقدس کا انتظام شام کے شہر دمشق سے جُڑا ہوا تھا۔ وہ ایک نہایت مخلص اور نیک سلطان ‘نور الدین زنگی’ کا دور تھا۔ سلطان نورالدین زنگی نے ایک رات نمازِ تہجد کے بعد خواب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں:
“مجھے اِن کے شر سے بچاؤ۔”
سلطان گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ اُنہوں نے دوبارہ وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ سلطان نے دوبارہ خواب دیکھا کہ نبیِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہی دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں:
“مجھے اِن کے شر سے بچاؤ۔”
سلطان نورالدین زنگی نے یہ خواب تین مرتبہ دیکھا۔ سلطان نے اس معاملے کے بعد فوراً اپنے مشیر جمال الدین اصفہانی کو بُلا کر یہ ماجرا بیان کیا۔ جمال الدین اصفہانی نے سلطان سے کہا کہ مدینہ منورہ میں کوئی اہم معاملہ پیش آ رہا ہے۔ لہذا اِس خواب کا کسی کے بھی ذکر کیے بغیر مدینہ منورہ روانہ ہو جانا چاہیے۔
سلطان نورالدین زنگی نے ایک تدبیر کے تحت اگلے دن اپنے معتمد اور خاص افراد کی جماعت کے ساتھ تحائف و دولت کا ذخیرہ لیا اور مدینہ منورہ کی طرف سفر شروع کر دیا۔تب عموماً شام سے مدینہ کا سفر 20 سے 25 دن کا ہوتا تھا۔ جب کہ سلطان نے معاملے کی نزاکت و اہمیت کے خیال سے تیزرفتاری اختیار کی اور 16ویں ہی دن مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ گورنرِ مدینہ بھی سلطان کی ایسی اچانک آمد پر حیران رہ گئے۔ سلطان نے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ سلطان نے خواب میں دکھائے گئے اُن دو ملعونوں کی گرفت کی خاطر یہ تدبیر اختیار کی کہ تمام مدینہ کی دعوت رکھ دی۔ ساتھ ہی یہ منادی کرا دی کہ سلطان بہ نفسِ نفیس تمام حاضرین کو اپنے دستِ مبارک سے تحائف بھی عنایت فرمائیں گے۔
لوگ سلطان کے سامنے حاضر ہوتے اور اپنا تحفہ وصول کرتے جاتے۔ سلطان نے اِس دوران ہر آنے والے کو غور سے دیکھا، مگر خواب میں دکھائے گئے مخصوص چہرے ابھی تک نظر نہیں آئے تھے۔ نورالدین زنگی نے استفسار کیا:
کیا مدینہ میں موجود تمام لوگ مجلس میں شریک ہو چکے ہیں؟
بتایا گیا کہ سلطانِ معظم! البتہ مراکش سے آئے ہوئے دو درویش صفت آدمی اِس مجلس میں حاضر نہیں ہیں۔ وہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں۔ وہ بہت عبادت گزار ہیں اور ہر وقت اللہ تعالی کی بندگی میں مشغول رہتے ہیں۔ ہم نے اُنہیں دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ نبیِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک بھیجتے رہتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف وہ خود بھی بہت مال دار اور فیّاض ہیں۔ اُنہیں تحائف کی کوئی حاجت نہیں ہے، بلکہ بجائے خود وہ اہلِ مدینہ میں مال تقسیم کرتے رہتے ہیں۔
سلطان نے حکم دیا کہ اُن دونوں کو بھی حاضر کیا جائے۔ جب سلطان کا قاصد اُن دو مراکشی درویشوں کو بُلانے پہنچا تو اُنہوں نے جواب دیا:
ہمارے خدا نے ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں رہنے دی۔ ہمیں کسی کھانے اور تحفے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب قاصد درویشوں کا یہ جواب لے کر واپس ہوا تو سلطان نے انتظامیہ کو حکم دیا کہ اُن دونوں کو فوراً یہاں حاضر کیا جائے۔ سلطان کے حکم کی تعمیل میں دونوں کو پیش کر دیا گیا۔ اگرچہ سلطان اُن کے چہرے دیکھ کر ہی پہچان گئے تھے، مگر سلطان نے تحمل سے بات بڑھاتے ہوئے سوال کیا:
تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟
درویشوں نے بتایا کہ ہم مغرب / مراکش کے رہنے والے ہیں۔ چوں کہ ہم حج کے لیے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تھے تو حج کے بعد اب مدینہ کی رحمتیں سمیٹ رہے ہیں۔ اور مستقل یہیں رہنا چاہتے ہیں۔
سلطان نے مخصوص لہجے میں کہا کہ اپنی حقیقت سچ سچ بتا دو۔ جب دونوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تو سلطان نے حاضرین سے معلوم کیا کہ یہ دونوں کہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں؟
سلطان کو بتایا گیا کہ یہ مسجدِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں۔ سلطان فوراً وہاں سے اُٹھے اور اُن درویشوں کو بھی ساتھ لے کر اُن کے مکان میں پہنچ گئے۔ سلطان نورالدین زنگی نے مکان کی اچھی طرح تلاشی لی اور ہر چیز دیکھ بھال لی۔ اس کے باوجود کوئی مشکوک چیز نہیں مل رہی تھی۔ اچانک سلطان کی نظر کمرے میں بِچھے ہوئے قالین پر پڑی، جب اُسے اٹھا کر دیکھا تو نیچے ایک سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج دار آواز کے ساتھ اُن سے دوبارہ معلوم کیا کہ بتاؤ، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
چناں چہ درویشوں کو معلوم ہوگیا کہ اب جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہم یہودی ہیں۔ (بعض جگہوں پر اُنہیں نصرانی لکھا گیا ہے) ہمارے حکمرانوں نے ہمیں حاجیوں کی صورت میں بہت زیادہ مال و دولت دے کر بھیجا ہے کہ ہم مسلمانوں کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جسمِ (اقدس) یہاں سے نکال کر اپنے ملک میں لے جائیں، تاکہ ہمارے حکمران اِس کے ذریعے مسلمانوں پر دباؤ ڈال کر اپنے مقاصد پورے کر لیں۔ لہذا ہم نے اِس غرض کے لیے مسجد نبوی کے قریب ایک مکان لیا اور وہاں سے سرنگ کھود کر روضۂ رسول تک پہنچنا چاہتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں سرنگ کھودتے ہوئے جو مٹی نکلتی ہے، صبح کے وقت وہ چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنت البقیع کی قبروں پر ڈال آتے ہیں۔ ہم مقدس روضے کے قریب ہی پہنچ گئے ہیں کہ اب آپ یہاں پہنچ گئے ہیں۔
جب اہلِ مدینہ کو اُن درویشوں کی سازش کا علم ہوا تو اُن کے پاؤں سے زمین ہی کھسک گئی۔ اُن کے چہرے فق ہو گئے۔ سلطان اُن ملعون یہودیوں کی بات سن کر روتے جاتے اور فرماتے:
“میرا نصیب کہ حضرت گرامیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی یہ مبارک خدمت اِس غلام کو عنایت ہوئی ہے۔”
چناں چہ سلطان نے اُن ملعون یہودیوں کو دردناک طریقے سے قتل کر دیا۔ سلطان نے روضۂ مبارک کے گرد گہری خندق کھدوا کر اُسے پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیا۔ تاکہ کوئی بھی بدبخت آئندہ ایسی حرکت کرنے کا خیال بھی ذہن میں نہ لائے۔
اسلام دشمن صرف اسلام سے ہی دُور نہیں ہوتے، بلکہ وہ انسانیت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ اس لیے کافروں کو موجودہ جمہوری فوجوں سے ہٹ کر جب بھی مجاہدین سے جنگ کرنا پڑی ہے، کفار کے مقدر میں ہمیشہ ناکامی و نامرادی ہی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار جنگ میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کے معزز رہنماؤں اور مقدس شخصیات کی قبروں کی بے حرمتی کر کے مسلمانوں کو ناکام و پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی قبیح حرکت پھٹکار زدہ اسرائیلی فوج نے فلسطین میں شہدا کے جسموں کے ساتھ کی ہے۔