کابل

مولوی امیرخان متقی ترکمانستان کے دورے پر روانہ ہوئے

مولوی امیرخان متقی ترکمانستان کے دورے پر روانہ ہوئے

 

کابل۔
امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مولوی امیر خان متقی ایک وفد کے ہمراہ ترکمانستان روانہ ہوئے جہاں پر وہ ترکمن حکام کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیاء احمد تکل نے کہا ہے کہ مولوی امیر خان متقی کو ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد مرادوف نے دورے کی دعوت دی تھی۔

ان کے مطابق اس وفد میں وزیر خارجہ کے علاوہ وزارت معدنیات و پیٹرولیم، افغانستان ریلوے اتھارٹی اور افغانستان الیکٹرسٹی کمپنی کے حکام بھی شریک ہیں۔

دو ماہ قبل ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد مرادوف نے بھی افغانستان کے صوبہ ہرات کے سرحدی شہر تورغنڈی کا دورہ کیا تھا اور افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی تھی۔

افغانستان ترکمانستان سے بجلی کے علاوہ دیگر بہت سی چیزیں درآمد کرتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالر کی برآمدات اور درآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری جانب امارت اسلامیہ کا ایک اور وفد چابہار بندرگاہ کے معاملے پر بات چیت کے لیے ایران پہنچ گیا ہے۔ امارت اسلامیہ کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ یہ وفد ایرانی حکام کے ساتھ چابہار بندرگاہ سمیت دیگر امور پر بات چیت کرے گا۔ اس وفد میں وزارت اقتصاد، وزارت تجارت، ٹرانسپورٹ، وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کے حکام شامل ہیں۔

وزارت تجارت کے حکام کے مطابق اس وفد کے دورے کا مقصد ایرانی حکام کے ساتھ چابہار بندرگاہ کے ذریعے برآمدات اور درآمدات بڑھانے سے متعلق معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے بارے میں بات چیت کرنا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ نومبر میں امارت اسلامیہ کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر کے دورہ ایران کے دوران مفاہمت کی پانچ یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے۔ وہ اس دورے کے دوران چابہار بندرگاہ بھی گئے تھے جہاں پر ایرانی حکام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔

چابہار بندرگاہ افغان تاجروں کے لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے ذریعے بحر ہند کے راستے افغانستان کی برآمدات اور درآمدات کی جا سکتی ہیں جب کہ دوسری جانب بھارت اس راستے سے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت بھی کر سکتا ہے۔
افغانستان اور ایران کے درمیان تقریباً 921 کلومیٹر مشترکہ سرحد واقع ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین مقیم ہیں اور گزشتہ سال کے دوران 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین وہاں سے واپس اپنے ملک آئے اور یہ سلسلہ ہنوز بھی جاری ہے۔