کابل

نصرتِ الٰہی کب نازل ہوتی ہے؟!

نصرتِ الٰہی کب نازل ہوتی ہے؟!

 

محمد افغان

مومنین کا یہ معاملہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اُنہیں کفارِ مکہ کی طرف سے بے تحاشا ظلم و ستم کا سامنا تھا۔ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کے تشدد و جبر کی شکایت کرتے ہوئے اِس خیال کے تحت کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مستجاب الدعوات کی طرف سے دعاؤں کے معاملے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے اپنے رب سے نصرت کی دعا نہیں مانگی ہوگی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے یہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں یہ فہم دیا کہ فتح و نصرت کا تعلق آزمائش و اِبتلا پر صبر و استقامت کے ساتھ ہوتا ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3612 میں منقول ہے:
عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ۔ قُلْنَا لَهُ: أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللہَ لَنَا؟ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ، وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ۔ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ۔ وَاللہِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللہِ أَوْ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ۞
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ آپ اُس وقت اپنی ایک چادر پر ٹیک دیے کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے مدد کیوں نہیں طلب فرماتے؟ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیوں نہیں مانگتے؟ (ہم کافروں کی ایذا دہی سے تنگ آ چکے ہیں۔) آپ ﷺ نے فرمایا: (ایمان لانے کی پاداش میں) تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور اُنہیں اس میں ڈال دیا جاتا۔ پھر ان کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے، وہ پھر بھی اپنے دین سے نہ پھرتے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے، وہ پھر بھی اپنا ایمان نہ چھوڑتے۔ اللہ کی قسم! یہ امر (اسلام) بھی کمال کو پہنچے گا۔ اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، (لیکن راستوں کے پُرامن ہونے کی وجہ سے) اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا یا صرف بھیڑیے کا خوف ہوگا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھاجائے، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔
قرآن اور حدیث کے مطابق سمجھنے کا معاملہ یہ ہے کہ نصرتِ الہی سے صرف غلبہ مُراد نہیں ہے۔ غالب آنا اور ظفرمند ہو جانا تو مطلوبہ نصرت کا کچھ ہی حصہ ہے۔ نصرت کا حقیقی معنی و مفہوم یہ ہے کہ ‘ہر وقت اللہ تعالی کی مدد شاملِ حال رہے۔’ البتہ اِس دوران آزمائشیں بھی آتی ہیں اور راحتیں بھی نصیب ہو جاتی ہیں، مگر بنیادی سبق یہ ہے ہر وقت نصرتِ الٰہی کا شاملِ حال رہنا تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب مومنین کی طرف سے اپنے مقصد اور فی سبیل اللہ جدوجہد میں ثابت قدمی اور استقامت برقرار رہے۔
افغانستان میں طالبان کا امریکا اور نیٹو کے سامنے بیس سال ثابت قدم رہنا اور فلسطین میں حماس کا اسرائیل کے سامنے استقامت قائم رکھنا بھی نصرتِ الٰہی کی ایک صورت ہے۔ افغانستان میں امریکی و نیٹو آزمائش کے وقت عوام نے طالبان کو تنہا اور بے یار و مددگار نہیں چھوڑا تھا۔ عوام نے ہمیشہ طالبان کے ساتھ تعاون جاری رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالی نے افغان عوام کو امارت اسلامیہ کی صورت میں حقیقی مسلمان اور صالح و مخلص حکومت عطا فرمائی ہے۔ بلکہ ایسی حقیقی صالح مسلم حکومت کی شان تو اللہ تعالی قرآن مجید میں سورۃ الحج کی آیت 41 میں یوں بیان فرماتے ہیں:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝
یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں۔
بلاشبہ دنیا یہ دیکھ چکی ہے کہ امارت اسلامیہ نے ہمیشہ اسلام کے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امارت اسلامیہ نے اقتدار حاصل کر کے معاشرے سے بُرائی ختم کرنے اور نیکی کی اشاعت کے لیے جیسی کوشش، جدوجہد اور عملی صورت پیش کی ہے، وہ ایسی قابلِ رشک اور قابلِ فخر ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان، خواہ وہ کسی بھی ملک میں رہتا ہو، اُسے امارت اسلامیہ کے ساتھ بے لوث محبت ہے۔ اُس کے دل کی تمنا ہے کہ کاش! اُس کے ملک میں بھی امارت اسلامیہ جیسا نظام نافذ ہو جائے۔
اہلِ غزہ بھی اپنی بے پناہ قربانیوں کی بدولت ایسے بلند منصب پر پہنچ گئے ہیں، جس کے بعد نصرتِ الٰہی کے لیے وہی الفاظ کہے جا سکتے ہیں، جو ایسے مواقع پر قرآن نے سورۂ بقرہ کی آیت 214 میں اپنے پیروکاروں کو سکھائے ہیں:
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰى يَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ مَتٰى نَصۡرُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ‏ ٢١٤۝
(مسلمانو) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں (یوں ہی) داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اُس جیسے حالات پیش نہیں آئے، جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے، جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور انہیں ہِلا ڈالا گیا۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ ‘اللہ کی مدد کب آئے گی ؟’ یا درکھو ! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔
البتہ جن لوگوں نے حصولِ نصرت کے لیے مطلوبہ معیار کی محنت اور جدوجہد کی ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی تیاری کی ہے، وہ تب تک نصرت سے محروم رہتے ہیں، جب تک کہ وہ نصرت کے نازل ہونے کے لیے خالص نیت اور رضائے الٰہی اختیار کرتے ہوئے ناگزیر قربانیاں نہ پیش کر دیں۔ ورنہ عموماً جنگیں جن جدید اسلحوں کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہیں، اسرائیل اس بنیاد کو اپنی مکمل طاقت کے ساتھ پورا کر کے میدان میں اُترا ہے، مگر وہ ناکام ہے۔ کیوں کہ مذہبی جنگ میں قائم رہنے کے لیے جس ناگزیر ایمانی رُوح کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اُسے مہیا نہیں ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی مسلمان فوج بھی اِس حالت میں قربانیاں پیش کرے کہ اُس نے خالص نیت اور رضائے الٰہی اختیار نہ کی ہو، وہ تب بھی اُس معیاری نصرت کی حق دار اور مستحق نہیں بن سکتی، جو اللہ تعالی نے جنگِ بدر، فتحِ مکہ اور افغانستان میں طالبان کو عطا فرمائی ہے۔
یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ فطری اصول کے تناظر میں فتح ملنے میں تب ہی تاخیر ہوتی ہے، جب ہمارے حالات و اعمال اُس نہج پر نہیں آتے، جو فتح کے لیے مقناطیسی کشش رکھتے ہیں۔ کیوں کہ نصرتِ الٰہی اور فتحِ مبین خدا کی ایسی تقدیر ہے، جو مسلمانوں کی خواہش کے مطابق نازل نہیں ہوتی، بلکہ اس تقدیر، یعنی نصرتِ الٰہی کے نازل ہونے اور سامنے آنے کے لیے ضروری یہ ہے کہ نیت خالص کی جائے اور اعمال درست کیے جائیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ فتح ایک عظیم الشان نعمت ہے، جو صرف اُسی کو حاصل ہو سکتی ہے، جو اس کا مستحق ہو۔ فتحِ مبین کے حصول، اُس کی نشو و نما اور اُس کی دیکھ بھال کے لیے پہلے مطلوبہ ماحول تیار کرنا لازمی ہے۔اُس کے نازل ہونے کے لیے موزوں حالات قائم کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو فتح حاصل ہو کر بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے، بلکہ ایسی حالت مزید نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔اس کی مثال افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے اختتامی مراحل میں سمجھی جا سکتی ہے۔ قربانیوں کی بدولت فتح تو حاصل ہو رہی تھی، مگر وہ فتح جن حالات میں مل رہی تھی، وہ حالات فتح کے لیے سازگار نہیں تھے۔ حالات کی سازگاری سے یہ مُراد ہے کہ اُس فتح کو سنبھالنے، اُس کی نشو و نما اور تعمیر و ترقی کرنے والوں کے درمیان باہم اتحاد، مشترکہ منہج اور اسلام کے مفادات کی فکر قائم ہو۔ جب کہ روس کے انخلا کے وقت مجاہدین میں باہمی اتحاد قائم نہیں رہا تھا۔ حکومت کا لالچ اور ذاتی مفادات کی پرستش شروع ہو گئی تھی۔ جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جب کہ طالبان کی قربانیوں کی بدولت امریکا کے انخلا کے وقت ایسی کوئی حالت نہیں تھی۔ نیت بھی خالص رضائے الٰہی تھی، منہج بھی درست تھا اور قربانیاں بھی پیش کی گئی تھیں۔ یعنی حالات مکمل سازگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب طالبان کو فتحِ مبین عطا ہوئی تو وہ اب تک پھل پھول رہی ہے۔ وہ اب مکمل سازگار حالات میں نازل ہوئی ہے۔ اسی لیے افغانستان اب مادی و روحانی دونوں ترقیوں کے زینے چڑھتا جا رہا ہے۔ الحمدللہ!