کابل

والدین کا احترام و فوائد

والدین کا احترام و فوائد

 

خزیمہ یاسین

اللہ تعالی نے انسان کو اُس کے والدین کی صورت میں بہت عظیم نعمت عطا فرما رکھی ہے۔ چوں کہ والدین عطیۂ خداوندی ہیں، اس لیے اللہ تعالی کی ہر نعمت کی طرح والدین کے بھی حقوق اور ادب و احترام کے لیے بنیادی تعلیمات نازِل فرمائی گئی ہیں۔ یہ آسمانی تعلیمات اس لیے بھی اہم ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کے لیے حصولِ جنت اور دنیا میں رِزۡق کی فراوانی کو والدین کی اِطاعت اور ادب و احترام کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالی نے والدین کے انتہائی احترام کے لیے قرآن مجید کی سورۃُ الاِسراء کی آیت 23 میں ارشاد فرمایا ہے:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا ط اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا۝
اور تمہارے پروردگار نے یہ حُکۡم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُنہیں اُف تک نہ کہو اور نہ اُنہیں جِھڑکو، بلکہ اُن سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو۔
تفسیر فی ظِلالِ القرآن میں مذکورہ آیت بارے وضاحت موجود ہے۔ قرآن کریم نہایت ہی دل نشین اندازِ کلام اور نرۡم الفاظ کے ذریعے اولاد کے دِلوں میں والدین کے حق میں عزت و احترام پیدا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب زندگی اپنی راہوں پر رواں دواں ہوتی ہے تو تَمام لوگوں کے جذبات اور اہتمام آگے کی طرف ہوتے ہیں۔ ہر انسان پیچھے والدین کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے آگے اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ عُموماً کم ہی لوگ ہوتے ہیں، جو والد اور والدہ کی طرف بھی مکمل توجہ قائم رکھتے ہیں۔ چناں چہ قرآن کریم نے اولاد کے وِجدان اور شُعور کو جگا کر یہ ضرورت محسوس کرائی ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے بھی دیکھے اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ تمام والدین میں یہ فطری داعیہ ہوتا ہے کہ وہ اولاد کے غم میں اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ جیسے ایک دانہ خاک میں گُم ہو کر ایک پودے کی شکل میں ڈھل جاتا ہے، اسی طرح والدین اولاد کے مستقبل میں جذب ہر کر رہ جاتے ہیں۔ یعنی بچے اپنے والدین کی تمام قوت، تمام اہتمام اور تمام طاقت نچوڑ لیتے ہیں۔ جب کہ اولاد اپنے بیوی بچوں کی فکر میں مصروف ہو کر بہت جلد والدین کی قربانیاں بھول جاتی ہے۔اور اگر زندگی کی مہلت باقی ہو تو ایسے والدین بڑھاپے میں نہایت بےبسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ یوں اولاد کی زندگی نقصان سے دوچار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس لیے قرآن نے اولاد کو نقصان سے بچانے کے اولاد کے شعور و وجدان کو بیدار کیا ہے، تاکہ وہ والدین کے ضعف اور ناتوانی کا احساس کرتے ہوئے والدین کو اُفّ تک نہ کہے۔
والدین کے احترام اور ادب کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے والدین کے حق میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا جائے، جس میں تنقید اور غصے کا لہجہ استعمال ہوا ہو۔ کیوں کہ یہ رویّے والدین کی توہین اور بے ادبی شمار ہوتی ہیں۔والدین کے ساتھ ہمیشہ احترام سے بات کرنی چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضور نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کا والدین کے احترام کے حوالے سے فرمان نقل فرماتے ہیں، جسے مشہور مصنف ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح کی جلد 7 کے صفحہ 3098 میں بیان کیا ہے:
مَنْ أَصْبَحَ مُطِيعًا لِلّٰہِ فِي وَالِدَيْهِ، أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَمَنْ أَمْسٰی عَاصِيًا لِلّٰہِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ النَّارِ، إِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا۞
“جس شخص کی صبح اِس حال میں طلوع ہوئی کہ اُس نے اللہ تعالی کے حکم کی فرماں برداری میں اپنے والدین کے حقوق ادا کیے تو اُس کے لیے جنت کے دو دروازے کھل جا تے ہیں۔ اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور جس شخص کی صبح اِس حال میں طلوع ہوئی کہ اُس نے اللہ تعالی کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے والدین کی حق تلفی کی تو اُس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بد سلوکی کی تو جہنم کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔”
ابونعیم اصبہانی کی مشہور کتاب حلیۃ الاولیاء کی جلد 3 کے صفحہ 123 پر لکھا ہے: حضرت حُمید الطویل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب اِیاس بن معاویہ رحمہ اللہ بصرہ کے قاضی بنائے گئے تو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اُن سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ جب کہ ایاس بن معاویہ رونے لگے، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ ایاس رحمہ اللہ نے فرمایا:
“كَانَ لِي بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأُغْلِقَ أَحَدُهُمَا۔”
یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب والدہ کی وفات پر ایک بند ہوگیا ہے، اس لیے رو رہا ہوں۔
وہ لوگ کسی قدر خوش قسمت ہیں، جن کے والدین زندہ اور وہ اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں۔ ایسی اولاد کے لیے جنت کے دونوں دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی وجہ سے رزق میں اضافہ اور برکت ہوتی ہے۔ امام ابنِ جَوزی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا رزق میں ترقی و برکت کے لیے روایت کردہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اپنی تصنیف کتاب البر و الصلۃکے صفحہ 55 میں درج کیا ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُمِدَّ اللہُ فِي عُمْرِهٖ، وَيَزِيدَ فِي رِزْقِهٖ، فَلْيَبَرِّ وَالِدَيْهِ، وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۞
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اُس کی عمر دراز کر دے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے۔
اللہ تعالی والدین کے فرماں بردار کو ایسے نوازتے ہیں کہ لوگ اُس پر رشک کرتےہیں۔ ایسی ہی ایک روایت ابنُ أبیِ الدنيا کی کتاب مَکارِمُ الاَخلاق کے صفحہ 85 میں مذکورہ ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ: لَمَّا تَعَجَّلَ مُوسیٰ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، رَأَى فِي ظِلِّ الْعَرْشِ رَجُلًا فَغَبَطَهُ بِمَكَانِهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَكَرِيمٌ عَلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔ فَسَألَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُخْبِرَهُ بِاسْمِهِ، فَلَمْ يُخْبِرْهُ وَقَالَ: أُحَدِّثُكَ مِنْ عَمَلِهِ بِثَلَاثٍ: كَانَ لَا يَحْسُدُ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ، وَكَانَ لَا يَعُقُّ وَالِدَيْهِ، وَلَا يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ۞
حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا، اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسیٰ علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آگیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا: اے اللہ! تیرے اِس بندے کا نام کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَیں تمہیں اس شخص کے تین عمل بتاتا ہوں۔ پہلا یہ کہ مَیں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، یہ اُن پر حسد نہیں کر تا تھا۔ دوسرا یہ کہ یہ شخص والدین کی نافرمانی نہیں کرتا تھا۔ تیسرا یہ شخص چغل خوری نہیں کر تا تھا۔
بیان کردہ تمام تفصیل کے بعد ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اگر ہم مسلمان دنیا میں عزت، مال اور شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایسے ہی اگر ہم بروزِ قیامت اللہ تعالی کا قابلِ رشک سایہ اور جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ ہم اپنے والدین کی قربانیوں کا یوں احترام کریں کہ اُن کی فرماں برداری کریں۔ ہم والدین کو یوں عزت دیں کہ اُن کے ساتھ دھیمے لہجے، مناسب الفاظ اور جھکی ہوئی نگاہوں کے ساتھ بات کریں۔ اگر ہم نے والدین کی فرماں برداری کے حوالے سے یہ عمل اختیار کر لیا تو ہم دنیا اور آخرت، دونوں جگہوں پر کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ