کابل

چھڑی بمقابلہ ٹینک

چھڑی بمقابلہ ٹینک

تحریر: قاری سعید
محمد خان ترکی افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ایک دیہاتی افغان تھے۔ چار دہائیاں قبل جب افغانستان میں کمیونسٹ برسراقتدار آئے تو سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی۔ دنیا بالخصوص مغربی بلاک بشمول امریکہ کو شدید خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سوویت یونین کے حملے کے فوراً بعد امریکہ اور مغربی بلاک کے دوسرے ممالک افغانوں کی حمایت کا اعلان کر دیں گے اور انہیں فوجی امداد دینا شروع کر دیں گے۔ لیکن کوریا، ویت نام، کیوبا اور دیگر ممالک میں سوویت یونین سے بری طرح شکست کھانے والے امریکا کے دل میں اب بھی سویت افواج کا خوف موج زن تھا۔ چناں چہ افغانستان سے بہت سے کمیونسٹ مخالف لوگ امریکا گئے اور امریکیوں سے سوویت یونین کے خلاف مدد طلب کی۔ محمد حسن کے بقول امریکیوں نے جواب میں کہا کہ: “ہم پہلے ہی افغانستان کو سوویت یونین کے زیر تسلط ملک سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس ملک پر سوویت یونین کے حملے کو اپنے مفادات پر حملہ نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ہم افغان مزاحمت کاروں کی حمایت کرکے سوویت یونین کی حساسیت کو ابھارنا چاہتے ہیں۔ سویت یونین کی جارحیت کے ابتدائی دور میں امریکا کا یہ جواب محض ایک بہانہ تھا، در حقیقت سویت یونین کی افواج سے دنیا اس قدر خوف زدہ تھی کہ اس کی مرضی کے بغیر سوچنا بھی محال تھا۔ امریکا خود کو سویت یونین کے مقابلے کا متحمل نہیں سمجھتا تھا۔ سویت افواج کا مقابلہ اس زمانے میں اس قدر مشکل تھا کہ ایٹمی قوت پینٹاگون کو اس کے سامنے کھڑے ہونے کی قوت نہیں تھی۔ لیکن افغانوں کی دینی و ملی غیرت و حمیت نے انھیں سویت افواج کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ اس زمانے میں افغان مجاہدین نے خالی ہاتھ سے جہاد کا آغاز کیا۔ ایک مجاہد کے بقول جب سویت افواج کے ٹینک مقابلے کے لیے آتے تو مجاہدین کا سب سے بڑا اسلحہ کلاشنکوف تھا جو روسی ٹینکوں پر کوئی اثر نہیں کرتا تھا۔ اس کے بعد مجاہدین نے صابن اور پٹرول کے محلول دستی بم بنائے۔ جو دس میٹر کے فاصلے سے ٹینک پر اثر انداز ہوسکتا تھا، مگر بسا اوقات دس میٹر کے فاصلے پر جا کر بم پھینکنے سے قبل مجاہد روسی ٹینک کا نشانہ بن کر شہید ہوجاتا۔ جب میں نے اس مضمون کو “ٹینک بمقابلہ چھڑی” کا نام دیا تو میرا مطلب اس وقت کی ایک تاریخی حقیقت کا حوالہ دینا تھا۔ روسی جارحیت کے ابتدائی سالوں میں صوبہ ہلمند کے مجاہدین میں سے ایک مجاہد کا نام محمد خان ترکی تھا۔ محمد خان ان پڑھ تھا، اس نے اپنی زندگی چرواہے کے طور پر گزاری، لیکن فکری طور پر وہ ایک مکمل اور پختہ مسلمان تھے۔ سوویت گھر آئے تو محمد خان ترکئی نے بھی علما سے سنا کہ کفار آگئے ہیں اور جہاد فرض ہے۔ محمد خان نے اپنا گلہ چھوڑ دیا لیکن “چھڑی” نہیں پھینکی۔ وہ “چھڑی” کے ساتھ روسی ٹینکوں کا سامنا کرنے نکلا۔ محمد خان جو بعد میں ایک عظیم مجاہد بن گئے، یہاں تک کہ ہلمند کے معروف مجاہد نسیم اخندزادہ ان کے جہادی شاگرد طلباء کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ بڑے توکل اور غیر متزلزل عزم کے مالک تھے۔ ہاتھ میں چھڑی لیے جب محمد خان روسی افواج کا مقابلہ کرنے نکلتے تو ترنم کے ساتھ پشتو کے یہ اشعار کہتے جاتے:
زما په لاس کې ډانګ ډانګ خدای ته مې تکیه ده
له تاسره که توپ ده یا که ټانګ یا طیاره ده .
زما په لاس کې ډانګ ډانګ خدای ته مې تکیه ده

ترجمہ: میرے ہاتھ میں چھڑی ہے اور خدا پر بھروسہ۔
تمہارے پاس میزائل ہو، یا ٹینک یا طیارہ
میرے ہاتھ میں چھڑی ہے اور خدا پر بھروسہ
جی ہاں! محمد خان اور دیگر مجاہدین کے پاس چھڑی تھی اور خدا پر بھروسہ تھا، اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں سوویت فوج کی ساکھ خطرے میں پڑ گئی اور انھیں ہر میدان میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
روسی ٹینکوں کے خلاف ہاتھ میں چھڑی لیے افغان مجاہدین نے دنیا والوں کو دکھا دیا کہ روسی افواج کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس کے بعد امریکا سمیت پوری دنیا کے دل سے روسی افواج کا رعب جاتا رہا اور وہ مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ سوویت افواج شکست کھا گئے، لیکن تب قلم دشمن کے ہاتھ میں تھا اور وہ یک طرفہ طور پر تاریخ میں لکھ کر گئے کہ روس کو اسٹینگر میزائل اور جدید اسلحہ نے شکست دے دی۔ لیکن درحقیقت روسی افواج کو ان مجاہدین نے شکست دے دی جن کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور اللہ تعالی پر کامل بھروسہ۔