چین سعودی عرب قربتیں، تعلقات کا نیا باب

چین سعودی عرب قربتیں، تعلقات کا نیا باب تحریر: مستنصر حجازی یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ عالمی سیاست کی بساط پر دنیا کے ممالک کے درمیان قرب و بعد کا انحصار باہمی مفادات پر ہے۔ ہر ملک اپنے مفاد کو دیکھ کر پالیسی ترتیب دیتا ہے۔ جس کیمپ میں ان کے مفادات کا تحفظ […]

چین سعودی عرب قربتیں، تعلقات کا نیا باب

تحریر: مستنصر حجازی

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ عالمی سیاست کی بساط پر دنیا کے ممالک کے درمیان قرب و بعد کا انحصار باہمی مفادات پر ہے۔ ہر ملک اپنے مفاد کو دیکھ کر پالیسی ترتیب دیتا ہے۔ جس کیمپ میں ان کے مفادات کا تحفظ زیادہ ممکن ہو وہیں قربت ہوگی اور جہاں مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو وہاں سے کنارہ کشی ہوگی۔ پل بھر میں طویل عرصے کے دیرینہ حلیف حریف بن سکتے ہیں اور پل ہی میں بدترین حریف حلیف بن سکتے ہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کم و بیش آٹھ دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس دوران کم ہی دیکھنے میں آیا کہ ان تعلقات میں اس قدر سرد مہری آئی ہو جس قدر حالیہ چند ہفتوں میں دیکھنے میں آئی۔ دونوں ممالک کے تعلقات اس قدر سرد مہری کے شکار ہوگئے کہ بائیڈن انتظامیہ کھلی دھمکیوں پر اتر آئی۔ تعلقات میں اس قدر سرد مہری کیوں آئی؟ امریکا سعودی عرب کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے پوزیشن میں ہے؟ اور کیا سعودی عرب امریکی مخالفت کا متحمل ہوسکتا ہے؟ یہ اور اس سے جڑے اسی نوع کے مزید سوالات حالیہ ہفتوں میں امریکا سعودی عرب کے درمیان خلیج سے پیدا ہوئے ہیں۔
یوکرین کی جنگ ایسا موڑ ہے جس نے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہر خطہ اس سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اسی جنگ نے سعودی امریکا تعلقات کو بھی متاثر کیا۔ پانچ ماہ پہلے جولائی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ جس کا مقصد سعودی حکومت کو تیل کی پیداوار میں اضافہ پر قائل کرنا تھا۔ مگر 5 جولائی کو سعودی عرب کی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے امریکی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تیل کی پیداوار میں یومیہ دو ملین بیرل کمی کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے اس فیصلے کا امریکا کی اندرونی سیاست اور پالیسیوں پر گہرا اثر پڑنا تھا، یہی وجہ ہے کہ اگلے ہی دن جوبائیڈن نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا اور باقاعدہ دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ سعودی عرب کو اس فیصلے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ بہ ظاہر تو یہ ناراضگی تیل کی پیداوار میں کمی کے باعث پیش آئی، مگر بہ غور دیکھا جائے تو تیل کی پیداوار میں کمی بیشی سے ہی موجودہ عالمی سیاست منسلک ہے۔ امریکا روس کی توانائی سے حاصل شدہ آمدن کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ امریکا بالواسطہ یوکرین کی جنگ سے منسلک ہے، ایسے میں جنگ کے دوران روس کے پاس آمدنی کا کوئی مضبوط ذریعہ ہو تو یہ امریکا اور اتحادیوں کےلیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ امارت اسلامیہ نے بھی اس اہم موقع پر روس کے ساتھ تیل کا معاہدہ کرکے امریکی ترجیحات کے خلاف اسٹینڈ لیا، جو نہ صرف امارت اسلامیہ کی آزاد خارجہ پالیسی کی عکاس ہے بلکہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے ممالک کے پلڑے میں اپنا حصہ ڈالا۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکی دباؤ کو مسترد کرنے کے بعد امریکا سعودی عرب کے خلاف ایکشن لینے کی پوزیشن میں ہے؟ یا سعودی عرب امریکی موقف کے خلاف اسٹینڈ لینے کا متحمل ہوسکتا ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ امریکا اب دوہرے امتحان میں ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی خرابی کسی طرح ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک تو سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اوپیک پلس ممالک کی تنظیم کی قیادت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب امریکی دفاعی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ تعلقات کی خرابی کے باعث نہ صرف دفاعی ساز و سامان کے برآمدات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے بلکہ ایسی صورت میں خلا پر کرنے کےلیے چین کی مکمل تیاری ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے چین کے ساتھ دفاعی سازو سامان کا معاہدہ بھی کیا ہے، جس کے مطابق ابتدائی طور پر ایک چینی کمپنی مسلح ڈرون طیارے تیار کرکے دے گا۔ چین اور سعودی عرب کی اس قربت کا خدشہ امریکی حکام بلکہ خود امریکی صدر نے بہت پہلے ظاہر کیا تھا۔ چناں چہ امریکی صدر نے رواں سال جولائی میں دورہ سعودی عرب میں سعودی کے دار الحکومت ریاض میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا: امریکا کہیں نہیں جا رہا، ہم یہاں خلا نہیں چھوڑیں گے جسے چین، روس اور ایران پر کریں۔” اگر چین اور سعودی عرب کے درمیان قربتیں بڑھنے کا سلسلہ مزید تیز ہوتا ہے جوکہ چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ تین روزہ دورے میں تیز ہوتا دکھائی دیتا ہے، ایسے میں یہ سلسلہ عالمی سیاست سے یک محوری کے خاتمے کی طرف ایک اور قدم ہوگا جو امریکی حکومت کےلیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
چینی صدر کا حالیہ تین روزہ دورہ سعودی عرب محض دونوں ممالک کے درمیان تجارتی یا توانائی کے شعبے میں کیے گئے معاہدوں پر مشتمل معمول کے مطابق کوئی دورہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ دورہ عالمی سیاست میں کسی بھونچال سے کم نہیں۔ بیجنگ اس دورے کو غیر معمولی واقعہ قرار دے رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماوننگ نے بدھ کے دن صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اس دورے کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ رواں سال جولائی میں امریکی صدر جوبائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے زیادہ گرم جوشی صدر شی کے دورے میں دیکھنے میں آئی۔ شان دار استقبال پر سعودی عرب میں چینی سفیر نے باقاعدہ شکریہ ادا کیا اور اسے باوقار قرار دیا۔ صدر شی کے طیارے جیسے ہی سعودی عرب کے حدود میں داخل ہوگئے تو سعودی فضائیہ نے اسے گھیر لیا اور کنگ خالد انٹرنیشنل ائیر پورٹ تک ساتھ رہے، سعودی فضائیہ نے اس دوران فضا میں چینی پرچم کی پینٹنگ بھی بنائی۔
سعودی عرب اور چین کی اس قربت میں اضافہ 2019 میں روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے آغاز سے ہوا۔ روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ رواں صدی میں چینی حکومت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ جس میں 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2019 میں اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق چینی صدر نے محمد بن سلمان سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ دو طرفہ تجارت کا کچھ حصہ امریکی ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یوآن میں ہو، اگر ایسا ہوا تو یہ ڈالر کےلیے بھی بہت بڑا جھٹکا ثابت ہوسکتا ہے۔
اس ساری صورت حال میں دونوں ممالک کی قربت کا یہ فائدہ ہوگا کہ دنیا سے یک محوری سیاست کا خاتمہ ہوگا، عالمی سطح پر طاقت کے استعمال میں توازن آئے گا جس میں ترقی یافتہ ملکوں کا فائدہ ہو نہ ہو ترقی پذیر ممالک کا بہ ہر حال فائدہ ہوگا۔