کابل

چین کی ثالثی میں ایران سعودی عرب کی قربتیں

چین کی ثالثی میں ایران سعودی عرب کی قربتیں

تحریر: مستنصر حجازی

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سات سال کے بعد تعلقات میں قربت آئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان منقطع تعلقات کی خلیج کم ہوگئی۔ یہ شاید اس ہفتے کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز ہے۔ جمعے کو سعودی عرب اور ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے خبر نشر کی کہ دونوں ممالک سات سال کے بعد ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ چین کی ثالثی میں دونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شامخانی جب کہ سعودی عرب کی جانب سے قومی سلامتی کونسل کے مشیر مساعد بن محمد العیبان نے دستخط کیے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کریں گے۔ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں گے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کریں گے۔ یہ معاہدہ چین کی ثالثی سے دونوں ممالک کے درمیان طے پا گیا۔ بیجنگ میں 6 سے 10 مارچ تک ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر تینوں ممالک کے نمائندوں نے باضابطہ طور پر معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ سائنس، ٹیکنالوجی، کھیل، ثقافت اور امور نوجوانان پر 1998 میں ہونے والے معاہدہ بھی فعال کیا گیا۔ اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کی جانب سے اس تاریخی معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے دفتر خارجہ سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا۔ پریس ریلیز میں کہا گیا: “امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت خارجہ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس مثبت اقدام کو خطے میں امن و استحکام کے قیام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیتی ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان اپنے متوازن خارجہ پالیسی کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں کثیر الجہتی تعلقات اور جامع تعاون کی راہ ہموار کرنے میں مددگار سمجھتی ہے۔” پریس ریلیز میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کےلیے چین کی سہولت کاری کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔

دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کب منقطع ہوگئے؟

ایران اور سعودی عرب مشرق وسطی کے دو اہم ممالک ہیں۔ مشرق وسطی کے کئی ممالک یا گروہوں پر دونوں ممالک کے گہرے اثرات ہیں۔ شام، لبنان اور یمن کے علاوہ مشرق وسطی کے کئی دیگر ممالک میں تہران اور ریاض کے درمیان پراکسی جنگ جاری تھی۔ جنوری 2016 میں سعودی عرب میں بغاوت کے الزام میں شیعہ عالم دین شیخ نمر النمر کو پھانسی دے دی گئی۔ جس کے رد عمل میں ایک مشتعل ہجوم نے تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے کو آگ لگا دی۔ جواب میں سعودی عرب نے سفیر کو واپس بلا لیا۔ تب سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع تھے۔ اس کے علاوہ یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے جب سعودی عرب کے تیل کی تنصیبات پر حملے ہوئے تو سعودی عرب نے تہران کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جب کہ ایران کا الزام تھا کہ سعودی عرب ایران کی سفارتی تنہائی کےلیے مغربی ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہاہے۔

تہران ریاض قربتوں کا بین الاقوامی سیاست پر کیا اثر ہوگا؟

افغانستان میں امریکا کی شکست اور یوکرین کی جنگ دو ایسے عوامل ہیں جو خطے کی سیاست میں کسی بھونچال سے کم نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد چین اور روس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو کم سے کم تر کیا جائے۔ اس مقصد کےلیے مشرق وسطی پر جہاں امریکا کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے اور ایران و سعودی عرب اس خطے کے اہم کھلاڑی ہیں کے درمیان مفاہمت کروا کر مشرق وسطی میں امریکی حیثیت کو چیلنج کیا۔ اس وقت امریکا بھی سعودی عرب پر دباو ڈالنے کے پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیوں کہ انھیں ماضی کی بنسبت کہیں زیادہ سعودی عرب کے تیل کی ضرورت ہے اور تیل کی وجہ سے اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری ہے۔ امریکا خطے میں چین کی حیثیت سے خوف زدہ ہے۔ چین کی ابھرتی معیشت کے خوف سے امریکا نے پچھلے سال کی بہ نسبت اس سال دفاعی بجٹ میں 26 ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ وہ اس وقت کئی محاذوں پر مصروف عمل ہے۔ یوکرین، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں کم ہوتی اثر پذیری وہ عوامل ہیں جو بین الاقوامی سیاست پر امریکی گرفت کی کمزوری کی نشانی ہے۔