کابل

چیک ڈیم اور پانی کے انتظام کی ضرورت

چیک ڈیم اور پانی کے انتظام کی ضرورت

الامارہ اردو
حال ہی میں امیر المومنین حفظہ اللہ کے خصوصی فرمان کی بنیاد پر ملک کے ہر ضلع میں ایک چیک ڈیم بنانے کا حکم دیا گیا۔ امیر المومنین حفظہ اللہ نے وزارت زراعت، پانی و توانائی، دیہی تعمیر نو اور ترقی کی وزارتوں کو ذمہ داری دی گئی کہ ہر وزارت تقریباً 140 چیک ڈیم بنائے، تاکہ پانی کی قلت کا مسئلہ ختم ہو۔ اس حکم نامے کے بعد تمام صوبوں میں چیک ڈیموں کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔  روزانہ کی خبروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے کئی اضلاع میں چیک ڈیموں کی تعمیر شروع ہو چکی ہے یا مکمل ہو رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں لوگ خشک سالی سے متاثر ہو رہے ہیں، ایسے میں پانی کے انتظام کے لیے چیک ڈیموں کی تعمیر سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ ہمارے ملک کے جغرافیائی محل وقوع کو دیکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور وسیع پیمانے پر پانی کی خدمات کا فقدان وہ چیلنجز ہیں جنہیں چیک ڈیموں کی تعمیر کے بعد نمٹا جا سکتا ہے۔ پانی کے ابتدائی بہتر انتظام کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے۔ چیک ڈیموں کی مدد سے بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جو غلط راستوں سے جا کر آباد علاقوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ممکنہ تعمیراتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اس پانی کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے خلاف کنٹرول کیا جائے۔ اس پر قابو پانے کا ایک اہم ترین طریقہ ان چیک ڈیموں کی تعمیر ہے۔ افغانستان میں تقریباً 80 لاکھ ہیکٹر قابل کاشت زمین ہے۔ اس میں سے آدھی زمین روایتی طور پر کاشت کی جاتی ہے لیکن باقی زمین پانی کی کمی کی وجہ سے بنجر اور بے کار ہے۔ اس حکم نامے کے مکمل نفاذ سے بیش تر متروکہ زمینیں بھی آباد ہو جائیں گی اور ملک کے پانی کو محفوظ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سیلاب پر بھی قابو پایا جا سکے گا جس سے پہلے ہمارے شہریوں کو بھاری مالی اور جانی نقصان ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ مٹی کی حفاظت بھی کرے گا اور سیلاب کی وجہ سے اسے بہا لے جانے  سے بھی بچانے میں مدد دے گا۔ چراگاہیں بنانے  اور ماحول کو صاف رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ پہاڑوں پر برفباری بھی گرمیوں میں پگھل کر پانی کی صورت بہہ جاتی ہے۔ ایسے میں اس پانی کو اسٹور کرنے کے لیے بھی چیک ڈیموں کی تعمیر نہایت ضروری ہے۔ یہ چیک ڈیم پانی کے انتظام کا واحد قدرتی طریقہ کار ہیں، جنہیں متوازن ترقی کے نقطہ نظر سے ایک مثالی اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو قومی معیشت کی بحالی میں پانی کا ایک اہم حصہ ہے جو نہ صرف زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی وسیع اثرات مرتب کرتا ہے۔

افغانستان میں پانی کے ذرائع

افغانستان میں پانی کے ذرائع خود افغانستان کی سر زمین ہے۔ دریائے کابل، دریائے آمو، دریائے ہریرود، مرغاب، ہلمند اور  شمال کے پانچ حلقے ہیں۔ ان حلقوں میں سوائے شمالی حلقے کے جو افغانستان میں بہتا ہے، باقی چار حلقوں کا پانی برسوں سے ملک سے باہر بہہ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں بین الاقوامی سطح پر پانی کی فی کیوبک میٹر کی قیمت 2 ڈالر تک ہے۔  اگر افغانستان اپنا پانی ایک ڈالر فی کیوبک میٹر کے حساب سے فروخت کرے تو اسے صرف پانی فروخت کرنے سے 50 ارب ڈالر سالانہ کمائی حاصل ہوگی۔ امارت اسلامیہ کے اس اقدام سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے پانی کے کنٹرول اور انتظام کے لیے باقاعدہ قلیل مدتی اور طویل المدتی منصوبوں پر کام کیا ہے، تاکہ اس پانی کو اچھی طرح منظم کیا جاسکے۔ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر عرب ممالک میں پانی کی قیمت تیل سے زیادہ ہے، کیوں کہ تیل، گیس اور دیگر چیزوں کے متبادل ہوتے ہیں لیکن پانی کا کوئی متبادل نہیں۔ پانی، پینے، زراعت، بجلی کی پیداوار اور دیگر کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق دنیا میں پینے کے قابل اور میٹھے پانی کے ذخائر بہت کم ہیں۔ افغانستان میں اللہ کے فضل سے میٹھے پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے افغانستان پر جارح قوتوں کی جارحیت کی وجہ سے افغانستان کے 60 فی صد لوگ پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم تھے۔ اس شعبے میں افغان حکومت نے اپنے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے تیزی سے کوششیں شروع کر دی ہیں اور جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں پانی کے نیٹ ورک بنائے جا رہے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کے پاس تقریباً 75 ارب کیوبک میٹر پانی کے ذخائر موجود ہیں۔ اگر افغانستان اپنے پانی پر ڈیم بنا لے تو اس کے پاس فی گھنٹہ 22 ملین کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔
کسی بھی ملک کو پانی کا بہتر انتظام کیے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔ امیر المومنین کے اس حکم کے مطابق ان چک ڈیموں کی بحالی اور مناسب سفارت کاری سے ملک کے پانی کا صحت مند طریقے سے انتظام کیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں افغانستان کا ہر باشندہ افغانستان ہی کے پانی سے مستفید ہوگا۔