کندہارمیں شہریوں پر حملہ اور میڈیا کی خاموشی

کندہارمیں  شہریوں پر حملہ اور میڈیا کی خاموشی غیر ملکی جارحیت پسندوں نے کندھار کےضلع میوند سے ملحقہ ریگ شہیدان کے علاقے میں  شہریوں  کے  چار گاڑیوں  پر حملہ کیا  جس  کے  نتیجے میں چاروں گاڑیاں مکمل  طور  پر  تباہ  ہوئی  ہیں اور ان میں سوار  20 شہری  شہید ہوئے ہیں۔ جارحیت پسندوں اور کابل […]

کندہارمیں  شہریوں پر حملہ اور میڈیا کی خاموشی

غیر ملکی جارحیت پسندوں نے کندھار کےضلع میوند سے ملحقہ ریگ شہیدان کے علاقے میں  شہریوں  کے  چار گاڑیوں  پر حملہ کیا  جس  کے  نتیجے میں چاروں گاڑیاں مکمل  طور  پر  تباہ  ہوئی  ہیں اور ان میں سوار  20 شہری  شہید ہوئے ہیں۔

جارحیت پسندوں اور کابل کے کٹھ پتلیوں  نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے  اس حملے میں 30 مجاہدین کو  شہید کیا ہے لیکن  حقیقت   یہ ہے  کہ  اس حملے  میں شہید ہونے والے سارے  عام  شہری ہیں۔ یہ   واقعہ اس وقت پیش آیا جب  مذکورہ  گاڑیوں میں سوار یہ  شہری  میوند سے  ہلمند کے ضلع بارامچہ کی  طرف جارہے تھے۔

کچھ عرصہ قبل بھی کندھار کے ضلع خاکریز  کے علاقے  باغکی  میں جارحیت پسندوں کی  بمباری میں   دو خواتین  سمیت پانچ شہری  شہید  جبکہ  چار  زخمی ہوئے تھے۔

ہر دن  ملک  کے مختلف  علاقوں میں جارحیت پسندوں اور کابل کی کٹھ  پتلی  حکومت کی بمباریوں ،رات کے چھاپوں،ڈرون حملوں اور  بھاری ہتھیاروں  کے مختلف حملوں میں عام شہریوں کو شدید جانی  و مالی نقصانات  پہنچتے ہیں۔  گھروں،رفاہ عامہ کے مراکز،مساجد اور مدارس اور سکول  وکالجز تباہ کئے جاتے ہیں۔

متاسفانہ  اکثر صحافی  اور ٹیلی  وژن  چینلز    اپنی  ذمہ داریوں سے غلط  استفادہ کرتے ہیں۔سیکیورٹی،عسکری،سیاسی اور  اقتصادی میدان میں جارحیت پسندوں کیلئے راہ  ہموار کرتے ہیں اورلوگوں کے اصل مسائل یعنی  امن  وامان کی دگرگوں صورتحال اور ڈھلتی معاشی  حالات  پر  کبھی کوئی  توجہ  نہیں دیتے۔

یہی وہ میڈیا  ہے جو جارحیت پسندوں  اور کے کاسہ لیسوں کے بڑے بڑے جرائم پر  پردہ  ڈالتے ہیں۔لیکن مجاہدین کی کوتاہیوں کے پیچھے خوردبین لے کر پھرتے ہیں۔ اور پھر نہایت ہی  چھوٹے اور جھوٹے   واقعات اور الزامات کو بڑھا چڑھاکر اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ   لوگ اس کو سچ سمجھنےلگتے ہیں اور ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔

لوگوں  کو اس قسم کے  میڈیا کی اصلیت کا پتہ چل  گیا ہے کہ اس  کی ڈوریں غیروں کے ہاتھ میں ہیں اور  ان ہی  کے مفاد کیلئے افغان عوام اور افغانی  مفادات کو  دجالی میڈیا کے ذریعے  داوّ پر لگا دیا ہے۔

افغان عوام اور صحافت کے شعبے  کے ساتھ ایک بڑی  زیادتی  یہ ہے کہ  غیر ملکی جارحیت پسندوں اور کابل  کے کاسہ لیس حکومت کی جانب سے عوامی نقصانات کو  یا تو بالکل  کوریج نہیں  دیتے یا دشمن کی طرف سے  فراہم کردہ  بیان کو من وعن  پیش کرکے  جان چھڑالی   جاتی ہے۔

میوند  میں ہونے  والا حالیہ سفاکانہ  حملہ  مذکورہ بات کی  واضح دلیل ہے کیونکہ اس واقعے  کے   حوالے  سے میڈیا میں  خاموشی  چھائی ہوئی ہے۔ دوسری  جانب اگر میڈیا پر کوئی رپورٹ  نظر سے  گذری ہے تو  انہوں نے  جارحیت پسندوں اور  کابل  حکومت کے  دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے حملے میں شہید ہونے والے شہریوں کو مجاہدین  قرار دیا ہے۔جو ایک سفید جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں۔

میڈیا،صحافی، انسانی  حقوق کی  تنظیموں اور  اہلِ قلم حضرات کی  یہ ذمہ داری ہے کہ افغان عوام کے  ظلم وستم  کرنے والے عناصر کا پردہ پاش کرے اور  انہیں عدالت کے کٹہرے میں لائے تاکہ  انہیں اپنے کئے  کی سزا  دی جاسکے۔

میڈیا  اور انسانی حقوق  کی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ  آزاد  طورپر کام کرتے  رہیں  اورکسی فریق کے زیراثر نہ آئیں۔ اور  واقعات کی رپورٹنگ کو طاقت اور دولت  پر قربان نہ کریں۔ اگر  افغانستان  میں پیش آنے والے واقعات پر میڈیا   حقائق پر مبنی رپورٹ   دنیا کے سامنے پیش کریں تو  اس سے  افغانستان کے  عام شہریوں پر  ہونے  والے حملوں میں  بلا شبہ بڑی حد تک کمی آسکتی ہے۔