کٹھ پتلی انتظامیہ نفسیاتی مریض بن گئی ہے!

آج کی بات: جب کابل کی کٹھ پتلی غلام فورسز کو افغانستان کے کسی علاقے میں مجاہدین دندان شکن  حملے کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی شکست اور رسوائی کی خبر  دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے تو اپنی شکست و رسوائی پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں […]

آج کی بات:

جب کابل کی کٹھ پتلی غلام فورسز کو افغانستان کے کسی علاقے میں مجاہدین دندان شکن  حملے کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی شکست اور رسوائی کی خبر  دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے تو اپنی شکست و رسوائی پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اس حملے کا منصوبہ پاکستان میں بنا ہے۔   اور یہ کہ وہ  غیروں کی جنگ میں قربان ہو رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ اس مسئلے پر فلاں بین الاقوامی کانفرنس میں آواز اٹھائیں گے وغیرہ۔

اگر مزدور دشمن سے سوال کیا جائے کہ فرض کریں، آپ کے مطابق اس حملے کا منصوبہ ہمسایہ ملک میں بنا ہے تو کیا اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنگی وسائل اور افراد کیسے  اور کس راستے  سے افغانستان کے دوردراز علاقوں قندوز، بغلان اور تخار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ آپ کی چار لاکھ فوج اور ایک لاکھ انٹیلی جنس اہل کار اس وقت کیا کر رہے تھے، جب  اس قسم کے خطرناک منصوبہ ساز افغانستان کی سرحدوں سے داخل ہو کر سیکڑوں کلو میٹر سفر کر تے ہیں۔ آپ کے ’’سخت ترین سکیورٹی حصار‘‘ سے نکل کر اپنے منصوبوں پر عمل در آمد کر لیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کیسا پاکستان ہے، جو امریکا سمیت 40 سے زائد نیٹو ممالک کی موجودگی میں اتنی جرأت کر تا ہے کہ مجاہدین وہاں ہر قسم کے منصوبے بناتے ہیں اور اس کی خبر صرف آپ کی غلام انتظامیہ کو  ہوتی ہے؟ امریکا کو  کوئی علم  نہیں یا اُس نے ’’پاکستانی نامی ملک کی اِس جرأت‘‘ سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے؟ اس کی دو  جوہات ہو سکتی ہیں۔

پہلی: پاکستان امریکا اور 40 سے زائد نیٹو ممالک سے فوجی اور اقتصادی میدان میں اتنا طاقت ور ہو گیا ہے کہ جس کے سامنے امریکا اور نیٹو پَر مارنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔

دوسری: پاکستان نے  امریکا اور نیٹو کی رضامندی سے مجاہدین کو جہادی کارروائیوں کی کھلی چھوٹ  دے رکھی ہے۔ یعنی کہ امریکا پاکستان سے اس بات پر راضی ہے کہ وہ مجاہدین کو منصوبے بنا کر دے، تاکہ وہ افغانستان میں امریکا اور اُس کی کٹھ پتلیوں کے خلاف کارروائیاں کر سکیں۔

اگر حقائق کو دیکھا جائے تو ان میں سے کسی بھی وجہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کو جس نظر سے بھی دیکھاجائے، وہ خطے میں امریکا اور مغرب کے مفادات کا ایک اہم چوکی دار ہے۔  کئی دہائیوں سے پاکستان اور امریکا کے درمیان (آقا و غلام کی حد تک) دوستانہ تعلقات و مراسم قائم ہیں۔ جس کے بدلے پاکستان کو ان ممالک سے خاطر خواہ امداد بھی ملتی ہے۔ اس لیے نہ پاکستان یہ جرأت کر سکتا ہے اور نہ اس کے اقتصادی، فوجی اور سیاسی مفادات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ امریکا یا نیٹو کے خلاف کسی عمل کا حصہ بنے۔ نہ ہی وہ ایسا کر سکتا ہے کہ امریکا سمیت اپنے ضمیر کی خلاف ورزی کر کے امریکا کے خلاف مجاہدین کی طویل عرصے تک حمایت کرتا ر ہے۔

روزانہ افغانستان میں امریکا و نیٹو کے درجنوں فوجی مجاہدین کے حملوں میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔24  گھنٹوں میں امریکا کے  20 سے  30 ملین ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ مجاہدین کے  تیر بہ ہدف حملوں نے امریکا کے سپرپاور کے دعوے کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ وہ سیاسی اور اقتصادی میدان میں بھی شکست سے دو چا ر ہے۔

پاکستان نے بھی امریکا کی رہنمائی میں اتحادی فورسز کی مدد کی ہے، لیکن اگر اس کے باوجود مجاہدین کامیاب اور روزافزوں  ترقی میں ہیں تو اس کا یہ مطلب کیسے ہو گیا ہے کہ پاکستان نے مجاہدین کی مدد کی ہے؟

امریکا نے زہریلے بم، B-52  طیاروں سے کارپٹ بمباری کی ہے، ڈرون طیاروں کے اندھے میزائلوں سمیت ہر قسم کی ٹیکنالوجی کا مجاہدین کے خلاف ظالمانہ استعمال کیا ہے۔ مختلف جیلوں میں مجاہدین اور عام افغان شہریوں پر قیامت خیز مظالم ڈھائے ہیں۔ ہر قسم کی اقتصادی، سیاسی اور سفری پابندیاں مجاہدین پر لگا دی گئیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی صاحب ثروت افغان شہری نے مجاہدین کو چند پیسے دیے ہوں تو اسے بھی بگرام  اور گوانتاناموبے کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں ڈالا گیا۔

سب سے افسوس نا ک حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کی کٹھ پتلی حکومت نے  مجاہدین کے زخمیوں کے ہسپتال میں علاج  پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جب بھی ان کو پتا چلتا ہےکہ فلاں زخمی کا تعلق مجاہدین کے ساتھ ہے تو اسے زخمی حالت میں ہی ہسپتال سے جیل منتقل کیا جاتا ہے۔ ایسے ہزاروں ڈاکٹرز کو بگرام میں قید کر رکھا ہے، جن پر شک ظاہر کیا گیا تھا کہ انہوں نے مجاہدین کے زخمیوں کی مرہم پٹی یا علاج کیا تھا۔

امریکا اور اس کی مزدور انتظامیہ کی ان تمام تر پابندیوں اور وحشتوں کے باوجود اگر مجاہدین فاتح  اور کامیاب ہیں ، لاکھوں غیرملکی اور کٹھ پتلی افواج کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ ایک طرف اپنے مؤقف کی لاج رکھی ہے اور دوسری جانب افغا ن قوم  کی ناموس، عزت اور آزادی کی اقدار کا مردانہ وار دفاع کیا ہے تو   اس کےپیچھے اللہ کی نصرت کے علاوہ دوسرے عوامل تلاش کرنا  بالکل پاگل پن ہے۔ اس طرح سے بے جا الزامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کٹھ پتلی انتظامیہ حواس باختہ ہو کر نفسیاتی مریض بن گئی ہے۔

اگر کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ مجاہدین کے خلاف اس سے ہزار گنا زیادہ منفی پروپیگنڈہ کرے، ہمارےمقدس جہاد کو پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی کارستانی کہے، نیٹو کے سامنے آہ و فریاد کرے تو  اُسے اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت مجاہدین کے ساتھ ہے اور اس سے بڑی کوئی قوّت نہیں ۔