کابل

گوانتانامو جیل سے مزید دو افغان قیدیوں کی رہائی

گوانتانامو جیل سے مزید دو افغان قیدیوں کی رہائی

 

کابل (رپورٹ: سیف العادل احرار)
امارت اسلامیہ کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ گوانتانامو کے دو سابق قیدی، جو عمان میں زیر حراست تھے، گزشتہ روز کابل پہنچے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان مفتی عبدالمتین قانع نے میڈیا کو بتایا کہ ملا عبدالظاہر صابر صوبہ لوگر کا رہائشی ہے اور عبدالکریم صوبہ خوست کا رہائشی ہے، دونوں کو امریکی فورسز نے 2002 میں گرفتار کیا تھا۔

ان دو قیدیوں میں ایک ملا عبدالظاہر صابر ولد ملا عبدالقادر ہے جو صوبہ لوگر میں واقع گاؤں حصارک کا رہائشی ہے، اس کو امریکی فورسز نے 2002 میں اپنے گھر سے اٹھایا اور پھر اسی سال کتوبر میں اسے بگرام جیل سے بدنام زمانہ گوانتاناموبے عقوبت خانہ منتقل کر دیا۔

ان کے مطابق 16 جنوری 2017 کو امریکہ نے انہیں گوانتانامو جیل سے رہا کیا اور سلطنت عمان میں نظر بند کر دیا، وہ سات سال تک وہاں نظر بند رہے اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں تھی۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں دو مظلوم افغان قیدیوں پر پابندیاں ہٹا دی گئیں اور وہ 14 سال بعد اپنے ملک واپس پہنچ گئے ہیں۔

مفتی عبدالمتین قانع کا کہنا ہے کہ دوسرا قیدی حاجی عبدالکریم صوبہ خوست کا رہائشی ہے جسے پاکستانی حکومت نے 14 اگست 2002 کو گرفتار کیا تھا اور کئی ماہ کی قید کے بعد امریکہ کے سپرد کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ حاجی عبدالکریم کو 2003 کے اوائل میں گوانتانامو جیل بھیج دیا گیا تھا، اور وہاں پر 14 سال قید گزارنے کے بعد انہیں عمان منتقل کیا گیا تھا، جہاں انہیں سات سال تک حراست میں رکھا گیا اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس سے قبل امارت اسلامیہ کی کوششوں سے 25 جون 2022 کو ایک اور افغان قیدی اسداللہ ہارون گل بھی گوانتانامو جیل سے رہا ہوکر اپنے گھر واپس آئے۔

2007 میں امریکی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اسد اللہ ہارون تقریباً 15 سال تک گوانتانامو جیل میں قید رہے۔

واضح رہے کہ 22 سال قبل 11 جنوری 2002 کو کیوبا میں امریکی بحری اڈے میں بدنام زمانہ عقوبت خانہ گوانتاناموبے قائم کیا گیا تھا۔
اس بدنام زمانہ عقوبت خانہ کا مقصد بش انتظامیہ کی “نام نہاد دہشت گردی” کے خلاف جنگ میں گرفتار ہونے والے مظلوم انسانوں کو حبس بے جا رکھنا تھا تاکہ ان پر امریکی قوانین لاگو نہ ہوسکیں جو ہر قیدی کا بنیادی حق ہے۔
اس بدنام زنامہ جیل میں 800 افراد قید تھے جن میں سے اکثر رہا ہوگئے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اب اس میں صرف 30 قیدی رہ گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ایک رپورٹر نے جون 2023 میں گوانتاناموبے کا دورہ کیا اور قیدیوں کی صورتحال قریب سے دیکھنے کے بعد امریکی حکومت کے ظالمانہ، غیرانسانی اور ذلت آمیز سلوک پر شدید تنقید کی اور اس کو انسانیت کے ساتھ گھناونا جرم قرار دیا۔

گزشتہ اکیس سالوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ اقوام متحدہ کے کسی رپورٹر کو گوانتانامو کے فوجی اڈے کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی جہاں مظلوم افراد زیر حراست ہیں۔

گوانتانامو حراستی مرکز کیسے بنا؟
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور دو ماہ فضائی حملوں کے بعد اس ملک پر قبضہ کیا جس کے نتیجے میں مختلف صوبوں سے امریکی افواج نے سینکڑوں افغان شہریوں کو گرفتار کیا۔ ان قیدیوں کو افغانستان سے باہر رکھنے کے لئے امریکی صدر جارج بش نے فوجی حکم جاری کیا اور وزیر دفاع ڈونالڈ رمزفیلڈ کو ایک مناسب جگہ تلاش کرنے کی ہدایت کی جہاں ان مظلوم قیدیوں کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک رکھا جا سکے۔
اس حکم نامے کے مطابق اگر کسی قیدی پر مقدمہ چلایا جاتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی ہوگا۔

دسمبر 2001 میں امریکہ کے وزارت قانون و انصاف نے وزارت دفاع (پینٹاگون) کو ایک خط میں لکھا کہ گوانتانامو جیل امریکہ کا علاقہ نہیں ہے، اس لیے قیدیوں کے مقدمات کو وفاقی عدالتوں میں نہیں لایا جا سکتا۔

گوانتانامو جیل دراصل ایک امریکی تھانہ ہے جو کیوبا کے مشرقی ساحل پر واقع امریکا کے زیر انتظام علاقے میں موجود ہے، گوانتامو کو ایک صدی قبل امریکہ نے کیوبا سے گروی طور پر لیا تھا اور یہاں بنایا گیا فوجی اڈہ ابتدائی طور پر کیوبا اور ہیٹی سے امریکہ جانے والے ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے تیار کیا گیا تھا۔