کابل

ہم اللہ کو بتائیں گے!

ہم اللہ کو بتائیں گے!

 

خزیمہ یاسین

جیسے غزّہ میں مسلم انسانی المیے کا سانحہ طویل ہوتا جا رہا ہے، ویسے ہی اگرچہ ایک طرف یہ طوالت غزہ کو اللہ تعالی کی مدد کے قریب کر رہی ہے، مگر دوسری جانب مصائب و آلام کی یہ صورت عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے اخوت کی ذمہ داری کا سوال بھی سنگین کرتی جا رہی ہے۔ غزّہ کے مسلمانوں نے جیسی بے بسی اور کسمپرسی کو جھیلا ہے، اس بے بسی سے زیادہ اذیت ناک مسلم حکمرانوں کا وہ رویّہ ہے، جس نے غزّہ کو تنِ تنہا اسرائیلی درندے کے سامنے ڈال دیا ہے۔ جہاں ہمارے ہی مسلمان بھائی یہودیوں کی وحشیانہ درندگی کو زخم و قتل کی صورت میں اپنے جسموں اور عزت و آبرو کی بربادی کو اپنی روحوں پر برداشت کر رہے ہیں۔ غزہ کے بچوں اور بوڑھوں کی زبان پر کسی طرح کا کوئی شکوہ نہیں ہے۔ وہ ہر لمحہ حسبنا اللہ نعم الوکیل نعم المولیٰ و نعم النصیر کا وِرد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ “ہم جا کر اللہ کو بتائیں گے!”
کسی مسلمان نے ایک عالمِ دین سے سوال کیا:
‘ہم ہر روز فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سے التجا کرتے ہیں وہ اسرائیل کو تباہ کر دے، تاکہ غزہ میں ہمارے مسلمان بھائی اسرائیل کے ظلم و ستم سے نجات پا لیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالی اسرائیل کو تباہ کیوں نہیں کر رہے؟’
جس پر عالمِ دین نے جواب دیا:
‘اللہ تعالی اسرائیل کو بالکل اُسی وجہ سے تباہ نہیں کر رہے، جس وجہ سے تم لوگوں کو تباہ نہیں کر رہے؟ تم مسلمانوں اور یہودیوں کی تباہی سے بچت کا ایک ہی سبب ہے۔ اُسی وجہ سے تم بھی محفوظ ہو اور اسرائیل بھی محفوظ ہے۔ اور وہ وجہ ہے خدائی مہلت! کیا وجہ ہے کہ جمعے کی نماز میں تو مسجدیں بھری ہوتی ہیں، جب کہ ہفتے کی باقی 34 نمازوں میں ایک صف بھی نمازیوں سے مکمل نہیں ہوتی؟ حالانکہ نماز وہ فرض ہے، جس میں ذرّہ بھر کوتاہی بھی بروز قیامت پکڑ کا باعث ہوگی۔ نماز کی کسی کوئی رخصت اور معافی نہیں ہے۔ البتہ اللہ تعالی نے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔لوگ اسی ڈھیل کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور فرض اعمال انجام دینے کی فکر و کوشش نہیں کرتے۔ جیسے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اُن کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں پر بھی مہلت دی ہے اور نماز جیسا فرض ادا نہ کرنے پر فوراً پکڑ نہیں کرتا، اللہ تعالی نے ایسے ہی یہودیوں کو بھی ڈھیل دے رکھی ہے۔ جس طرح مسلمان اس مہلت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے باوجود اللہ تعالی کی فوری پکڑ سے بچے ہوئے ہیں، اسی طرح یہودی بھی چند دن کی مہلت کو اپنے کامیاب ہونے کا گمان کیے بیٹھے ہیں اور اللہ تعالی کی فوری پکڑ سے محفوظ ہیں۔’
اللہ تعالی نے سورۃ النحل کی آیت 61 میں اسی مہلت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
وَلَوۡ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلۡمِهِمۡ مَّا تَرَكَ عَلَيۡهَا مِنۡ دَآبَّةٍ وَّلٰـكِنۡ يُّؤَخِّرُهُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ لَا يَسۡتَـاۡخِرُوۡنَ سَاعَةً وَّلَا يَسۡتَقۡدِمُوۡنَ۝
اور اگر اللہ لوگوں کو اُن کے ظلم کی وجہ سے (فوراً) اپنی پکڑ میں لیتا تو روئے زمین پر کوئی جان دار باقی نہ چھوڑتا، لیکن وہ اُن کو ایک معیّن وقت تک مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کا وہ معین وقت آ جائے گا تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکیں گے۔
اگر اللہ تعالی ایک طرف بندوں کے گناہوں پر فوراً پکڑ نہیں کرتے تو اللہ تعالی دوسری طرف غزہ کے معاملے پر مسلمانوں کا امتحان بھی لے رہے ہیں۔ اِس مشکل گھڑی میں کون غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرتا ہے؟ کون اُن مظلوموں کو ظالم کفار سے محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ کون اُن بے سہاروں کا مددگار بنتا ہے؟ کون غزہ کے بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے؟ کون غزہ کے زخمیوں کا علاج کرتا ہے؟ کون غزہ کے پریشان حالوں کے دُکھ کا مداوا کرتا ہے؟
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ‘الادب المفرد میں 517’ نمبر پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی روایت کردہ ایک حدیثِ قُدسی نقل فرمائی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللہُ: اَسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمَنِي، قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ اسْتَطْعَمْتَنِي وَلَمْ أُطْعِمْكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلانًا اسْتَطْعَمَكَ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي، فَقَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ عَبْدِي فُلانًا اسْتَسْقَاكَ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ سَقَيْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أَعُودُكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلانًا مَرِضَ، فَلَوْ كُنْتَ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ أَوْ وَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟“
“سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ روزِ قیامت فرمائے گا: اے بندے! مَیں نے تجھ سے کھانا طلب کیا، لیکن تم نے مجھے کھلایا نہیں۔
بندہ کہے گا: اے میرے رب! تُو نے مجھ سے کیسے کھانا مانگا تھا اور مَیں نے تجھے کھلایا نہیں تھا، جب کہ تُو تو رب العالمین ہے؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تُو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تُو نے اُسے نہیں کھلایا۔ تُو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو اُس کو کھلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا۔
اے ابن آدم! مَیں نے تجھ سے پانی طلب کیا، لیکن تُم نے مجھے نہ پلایا۔
وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مَیں تجھے کیسے پلاتا، جب کہ تُو تمام جہانوں کا رب ہے۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تو نے اسے نہ پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں، اگر تُو اُسے پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا؟
اے ابن آدم! مَیں بیمار ہوا تو تُو نے میری تیمارداری بھی نہ کی۔
وہ کہے گا: اے میرے رب! مَیں کیسے تیری تیمارداری کرتا، جب کہ تُو تمام جہانوں کا رب ہے؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، اگر تُو اس کی تیمارداری کرتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا، یا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔”
ایسے ہی اگر اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں سے سوال کر لیا کہ فلسطین میں میرے مسلمان بندے یہودیوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کیے جاتے رہے تھے تو تُم کیا کر رہے تھے؟تم نے فلسطین کے لیے کیا کردار ادا کیا؟کیا فلسطینیوں کی مدد کے لیے ابابیل کی فوج مانگنے سے معافی ہو جائے گی؟
فلسطین بنیادی طور پر ایک ملک اور خطۂِ زمین کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عالمی اسلامی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ وہ ایک امتحان ہے۔ یہ واضح کرنے کے لیے کہ کون اِس نازک معاملے پر فلسطینیوں کے دُکھ درد میں شریک تھا اور کون اُن کا خون بہانے میں کفار کا شریک تھا؟ اگر حشر کے دن بھوک سے مرنے والے کسی فلسطینی بچے نے اللہ کو بتا دیا کہ یہ مسلمان تب ہماری مدد پر قدرت رکھتے تھے، مگر یہ صرف کفار کے ڈر سے ہماری مدد نہیں کر رہے تھے، تب ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ ہمارا جواب ہمارے کردار میں پوشیدہ ہے! آخر ایک دن ہم نے اور فلسطینی شہدا نے ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اللہ تعالی کو جواب دینا ہے!