کابل

آنکھیں بند کیں تو قتل ہو جاؤ گے!

آنکھیں بند کیں تو قتل ہو جاؤ گے!

محمد افغان
دنیا کی محبت اور موت سے بے زاری کی بیماری نے ساتویں صدی ہجری میں عالمِ اسلام کو تاتاریوں کے ہاتھوں جس اذیّت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا، وہ سانحہ آج تک اُمت کو اپنے اثرات سے متاثر کر رہا ہے۔ فتنۂ تاتار ایک ایسی قیامت تھی، جس نے مسلم سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی۔ تاتاریوں کی دہشت کا یہ عالَم تھا کہ وہ جس علاقے میں قدم رکھتے، وہاں اُن کے پاس کسی مسلمان کو زندہ چھوڑنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تب تاتاری موت، خوف، ذلّت، قتلِ عام، نسل کُشی، عزت و آبرو کی بربادی کی علامت بن چکے تھے۔ وہ جس شہر، بستی اور گاؤں میں داخل ہوتے، وہاں یہ جرائم واقع ہونا لازمی اَمر تھا۔ تاتاریوں کی اس دہشت گردانہ روایت کے بارے میں علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ‘تاریخِ دعوت و عزیمت’ کی پہلی جلد میں لکھتے ہیں:
“مسلمانوں پر تاتاریوں کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات ایک تاتاری ایک گلی میں گھستا ہے، جہاں ایک سو مسلمان موجود ہوتے ہیں ۔کسی میں مقابلے کی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ ایک ایک کرکے سب کو قتل کر دیتا۔ کسی نے ہاتھ تک نہ اُٹھایا۔ ایک گھر میں ایک تاتاری عورت مرد کے بھیس میں گھس گئی اور تنہا سارے گھر والوں کو قتل کر دیا۔ بعض اوقات تاتاری نے کسی مسلمان کو گرفتار کیا اور اس سے کہا کہ اس پتھر پر سر رکھ دے، مَیں خنجر لا کر تجھے قتل کردوں گا۔ مسلمان سہما پڑا رہا اور بھاگنے کی ہمت نہ ہوئی، یہاں تک کہ وہ کہیں سے خنجر لایا اور اس کو ذبح کر دیا۔یہ وہ حادثۂ عُظمی اور مصیبتِ کبری ٰ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔”
اگرچہ اس واقعے کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، لیکن خاص طور پر مسلمانوں سے ہے۔ اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ از آدم تا ایں دم ایسا واقعہ دنیا میں پیش نہیں آیا تو وہ کچھ غلط دعوی نہ ہو گا۔ تاریخوں میں اس واقعے جیسا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ شاید دنیا قیامت تک (یا جوج ماجوج کے سوا) کبھی ایسا واقعہ نہ دیکھے۔ ان وحشیوں نے کسی پر رحم نہیں کھایا۔ انہوں نے عورتوں، مردوں اور بچوں کو قتل کیا۔ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے۔ یہ حادثہ عالم گیر و عالم آشوب تھا۔ یہ ایک طوفان کی طرح تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم میں پھیل گئے۔
بغداد عالمِ اسلام کا سب سے بڑا شہر اور علوم و فنون کا مرکزتھا۔ ہزار ہا علما و صلحا کا مسکن اور دارالخلافت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی آبرو تھا۔ مگر وہ وحشی عالمِ اسلام کو زیر و زبر کرتے، خون کے دریا بہاتے اور آگ لگاتے ہوئے ۶۵۶ھ میں ہلاکوخان کی سربراہی میں دارالخلافہ اور اس زمانے کے بڑے علمی مرکز بغداد میں داخل ہوئے۔ انہوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔بغدا د کی تباہی اور قتل عام کی تفصیل انتہائی دردناک ہے۔ اس کا کچھ کچھ اندازہ اُن مؤرخین کے بیانات سے ہوگا، جنہوں نے اس سانحے کے آثارلکھے ہیں۔مؤرخ ابنِ اثیر لکھتے ہیں:
بغداد میں چالیس دن تک قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ چالیس دن کے بعد یہ دنیا کا پُررونق ترین گُل زار شہر ایسا ویران و تاراج ہو گیا کہ تھوڑے سے آدمی دکھا ئی دیتے تھے۔ بازاروں اور راستوں پر لاشوں کے ڈھیر اس طرح لگے تھے کہ ٹیلے نظر آتے تھے۔ ان لاشوں پر بارش ہوئی تو صورتیں بگڑ گئیں اور سارے شہر میں بدبو پھیل گئی۔ جس سے شہر کی ہوا خراب ہوگئی۔ سخت وبا پھیل گئی۔جس کا اثر ملکِ شام تک پہنچا۔ اس ہوا اور وبا سے بکثرت مخلوق مری، گرانی،وبا اور فنا، تینوں کا دور دورہ تھا۔ (تاریخ دعوت و عزیمت، ج ۱، ص ۸۰۳)
آج فلسطین میں بالکل تاتاری دہشت گردی کی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ یہ صرف اِس وجہ سے کہ مسلمانوں نے جہاد چھوڑ دیا ہے۔ دنیا سے محبت کرنے لگے ہیں۔ موت سے نفرت کرتے ہیں۔ علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے:
“شاید دنیا قیامت تک (یا جوج ماجوج کے سوا) کبھی ایسا واقعہ نہ دیکھے۔”
مگر یہ المیہ ہی ہے کہ یاجوج ماجوج سے بہت پہلے آج کے مسلمانوں نے تاتاریوں سے زیادہ دردناک سانحہ فلسطین میں دیکھ لیا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ دو دن قبل اسرائیلی دہشت گرد فوج نے غزہ کے الشفاء اسپتال میں اوّل تو عمارت کو شدید نقصان پہنچایا اور بجلی اور مریضوں کے علاج معالجے کے نظام کو روک کر کئی بچوں کو مرنے دیا گیا۔ جب کہ کئی بچوں کو بلاواسطہ فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ اسی دوران جس دل دہلانے والے سانحے نے مسلمانوں کی غیرت کی موت کا اعلان کیا، وہ یہ المیہ گُزرا کہ اسرائیلی فوج نے اسپتال میں موجود خواتین کی عصمت دری کی ہے۔ اس درندگی کے بعد اُن مظلوم خواتین کو قتل بھی کر دیا گیا۔
اُن خواتین میں سے ایک کے شوہر نے اپنے دل پر نہ جانے کون سا پتھر رکھ کر مسلم اُمت تک یہ سانحہ پہنچایا کہ جب اسرائیلی فوج اسپتال میں آئی تو انہوں نے میری بیوی سے اپنے کپڑے اُتارنے کا کہا۔ جب میری بیوی نے انکار کیا تو فوجیوں نے اُس پر تشدد شروع کر دیا۔ جس پر میری بیوی نے کہا کہ ‘مَیں پانچ ماہ کی حاملہ ہوں، مجھے مت مارو!’ مگر ظالم یہودی اُس پر تشدد کرتے رہے۔ اس کے بعد اسپتال میں موجود خواتین کو وہاں سے باہر لے گئے۔ جب کہ اُس حاملہ عورت کو وہیں رہنے دیا۔ مگر اُس حاملہ عورت کو اُس کے شوہر اور بچوں کے سامنے عصمت دری کا شکار کیا گیا۔ تب یہودی فوجیوں نے فلسطینی مردوں کو یہ حکم دیا کہ “وہ عصمت دری کے اس کھیل کے دوران اپنی آنکھیں بند نہ کریں، بلکہ آنکھیں کھول کر یہ منظر دیکھیں۔ اگر جس کسی نے اس دوران اپنی آنکھیں بند کیں، اُسے گولی مار دی جائے گی۔”
یہ خوف ناک، گھناؤنا اور دل کو چیر کر رکھ دینے والا وہ سانحہ ہے، شاید ایسی ذلت و تباہی تاتاریوں کے ظلم کے دوران بھی سامنے نہ آئی ہوگی۔ مگر آج جب مسلمان تعداد اور جنگی وسائل کے اعتبار سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، وہ اس ذلت کے دن رات نہ جانے کس خوش فہمی میں گزار رہے ہیں؟! کیا کسی غیرت مند مسلمان کے لیے یہاں یوں بے حس اور بے پروا رہ کر گھروں میں بیٹھے رہنے کی گنجائش موجود ہے؟ یہ ایسا سانحہ ہے، جو کسی بھی ایمان والے اور زندہ ضمیر مسلمان کے لیے زندہ درگور ہو جانے سے بڑا المیہ ہے۔ البتہ مسلمان جس طرح اس سانحے پر ذلت آمیز طریقے سے خاموش ہیں، اس سے یہ یقین کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ یہودیوں کی طرف سے ایسے سانحے دُہرائے جاتے رہیں گے!
ایک وقت تھا کہ ایک مسلمان عورت کی پُکار نے خلافتِ بغداد کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ معتصم باللہ نے 90 ہزار سے زیادہ مجاہدین کا ایک لشکر عموریہ میں کفار کی قید میں مسلمان عورت کی پُکار پر بھیجااور اُسے آزاد کرا کر لایا گیا۔ آج غزہ میں محصور ہماری مسلمان مائیں بہنیں چیخ چیخ کر مسلمان حکمرانوں کو پُکار رہی ہیں، مگر کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہر مسلمان حکمران اپنے مفادات میں ڈوبا ہوا ہے۔ بجائے خود وہ اپنی دنیا کی محبت میں گرفتار ہے، اُس نے فلسطینیوں کو یہودیوں کی قید کی کیسے آزادی دلانی ہے؟!
مسلمانوں کی طرف سے اِس قدر بھیانک خیانت نے مسلمانوں کے کھوکھلے ایمان کو واضح کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کفار مسلمانوں کو گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔