اب مگر قاتلو! انتہا ہو گئی..

‎عبدالرحمن ‏   پیرس پر ہونے والے حملے نے فرانسیسیوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ مغرب کو معلوم ہو گیا ہے کہ جب کوئی انسان گولی، بم اور بارود کا نشانہ بنتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ ! ‏اگر آتش و آہن کی یہی برسات کسی بے گناہ پر برسائی جائے تو اس کے […]

‎عبدالرحمن

‏   پیرس پر ہونے والے حملے نے فرانسیسیوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ مغرب کو معلوم ہو گیا ہے کہ جب کوئی انسان گولی، بم اور بارود کا نشانہ بنتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ ! ‏اگر آتش و آہن کی یہی برسات کسی بے گناہ پر برسائی جائے تو اس کے محسوسات کیا ہوتے ہیں؟ ویسے یہ بہت دلچسپ صورتِ حال ہے کہ پیرس میں ’’باتا کلان کنسرٹ ‏ہال‘‘ کے حوالے سے پولیس اہل کاروں نے دفاعی کارروائی میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور اس مزاحمتی عمل کے دوران اُن کے احساسات پر کیا بیت رہی تھی؟! اس ‏بات کو ایک پولیس اہل کار نے میڈیا سے شیئر کرتے ہوئے کہا:

‏   ’’انہوں نے وہاں اصل میں جہنم دیکھا ہے!‘‘

‏   ویسے سچ تو یہ ہے کہ مغرب کو ابھی تک صحیح معنوں میں معلوم نہ ہوگا کہ ’’آتش و آہن کی برسات سے پیدا ہونے والا جہنم درحقیقت کیسا ہوتا ہے؟‘‘ ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ‏اسی نوعیت کے وقفے وقفے سے ہونے والے ’’جوابی حملے‘‘ صرف ایک جھلک ہیں، اُس ’’جہنم‘‘ کی… جسے وہ سال ہائے دراز سے عالم اسلام کے دامن پر شعلہ بار بنائے ‏ہوئے ہیں۔ اصل جہنم تو وہ ہے، جو فرانس کی کارکردگی کی وجہ سے شام میں دہک رہا ہے۔ جو امریکی سازشوں کی وجہ سے افغانستان، عراق اور شام میں برپا ہوا پڑا ہے۔ جو ‏برطانوی کرتبوں کی وجہ سے فلسطین میں جل رہا ہے۔ جو روس کی وجہ سے چیچنیا میں لگا ہوا ہے۔ جو امریکی آشیر باد سے کشمیر میں دہک رہا ہے۔ جو برما میں کئی ہزار مسلمانوں کو ‏نگل گیا ہے۔ امریکی صدر کا یہ بیان کتنا مضحکہ خیز ہے؛ ’’پیرس حملے پوری انسانیت پر حملے ہیں۔!!‘‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق اور اسرائیل کی مخالفت ‏میں ہونے والے فیصلوں کے خلاف ’ویٹو پاور‘ استعمال کرنے والے امریکی صدر کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ افغانستان، عراق، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، پاکستان، برما، ‏فلسطین، الجزائر، مالی، شام اور مظلوم عالمِ اسلام کے ساتھ جو کچھ مغرب کر رہا ہے، اس میں انسانیت کی کتنی خدمت ہو رہی ہے؟ اگر اتنے زیادہ مظلوموں کا بدلہ ایک دشمن ‏سے لے لیا گیا ہے تو اس پر اتنا کیوں چیخا اور چلّایا جا رہا ہے؟ آپ کا یہ وہی منھ اور زبان ہے ناں، جب چارلی ایبڈونے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی تھی اور مسلمانوں کے ‏نازک جذبات سے کھلواڑ کیا تھا تو اہلِ اسلام کو ’’برداشت، صبر اور حوصلے‘‘ کی تلقین کی جا رہی تھی!!کیا برداشت، صبر اور حوصلے کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہی ‏ہیں۔ اگر اب وقت پڑنے پر مغرب بھی ان درخشاں تعلیمات پر عمل کر لے تو اس میں کیا برائی ہے؟!!

‏   مغرب کو سمجھ لینا چاہیے اب وہ وقت آگیا ہے، جب مسلمانوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ ’’ہم بھی تب تک آرام اور چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک اپنے ایک ایک ‏مسلمان بھائی کے خون کا بدلہ نہ لے لیں۔‘‘ آج شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی وہ بات یاد آرہی ہے: ’’مغرب کو تب تک چین نصیب نہیں ہو سکتا، جب تک فلسطین میں ‏امن قائم نہیں ہوگا!!‘‘ امریکا سمیت تمام مسلم دشمن عناصر کو یہ بات پلے باندھ لینا ہو گی کہ تمہاری طرف سے جس آگ کے شعلے مشرق میں پھینکے گئے ہیں، اب مغرب ‏کی سمت چلتی ہوائیں اُنہیں تمہارے دروازے تک لے گئی ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے مسلمان کا لہو رنگ نہ لائے؟! کیا ایسا ممکن ہے جسم کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے، لیکن ‏دوسرے کو کوئی درد نہ ہو؟! کیا ایسا ممکن ہے مغرب ہمیں بے امن کرے اور خود چین کی بانسری بجائے؟! کیا ایسا ممکن ہے امریکا ہماری زمینوں میں بارود کاشت کرے اور ‏اس کے شعلے واشنگٹن تک نہ پہنچیں؟! کیا ایسا ممکن ہے فرانس ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی جسارت کرے اور پیرس کی شان باقی رہے؟! کیا ایسا ممکن ہے برطانیہ ‏ہمارے بچوں کو خون میں نہلا دے، لیکن اس کی آئندہ نسلیں بھی ہنسی خوشی زندگی جی سکیں؟!

‏   نہیں، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا!! جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے۔ ہمیں جینے دوگے تو خود جی سکو گے۔ ہم آخری آفاقی مذہب کو ماننے والے مسلمان ہیں اور ہمارا ‏طرز زندگی ’’جینے دو اور جیو‘‘ ہے!! آپ ہم سے یہ توقع مت رکھیں کہ ہم ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فلسفے کے پیروکار ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد کی تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے۔ ‏تمہارا سکون ہمارے امن کے ساتھ مشروط ہے۔ ہماری اس بات کو بے وقعت سمجھنے والوں کا انجام اُن ’’خیبر بدروں‘‘ سے پوچھ لو، جو اصل جہنم سے بچنے کےلیے ’’غرقد ‏کی ڈھالیں‘‘ بنانے میں مصروف ہیں!!‏

ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں سدا..

ہم نے تم کو اگر خوں رُلایا نہیں..

روند کر اہل ایمان کی بستیاں..

کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو..

یہ تو ممکن نہیں عیش سے تم رہو..

اور ملت ہماری عذابوں میں ہو!!!‏