اشرف غنی رواں جہاد کی نسبت کیوں ہمسائیہ ملک کو کر رہا ہے!!؟

  اشرف غنی نے حال ہی میں پاکستانی نجی چینل جیو کے اینکرپرسن ‏سلیم  صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے حقائق کے حوالے سے بڑی دھٹائی کے ‏ساتھ چشم  پوشی  اختیار کی ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں تعارف کراتے ‏ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے منتخب صدر ہیں۔ جب کہ جارحیت پسند ‏امریکا کا […]

 

اشرف غنی نے حال ہی میں پاکستانی نجی چینل جیو کے اینکرپرسن ‏سلیم  صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے حقائق کے حوالے سے بڑی دھٹائی کے ‏ساتھ چشم  پوشی  اختیار کی ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں تعارف کراتے ‏ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے منتخب صدر ہیں۔ جب کہ جارحیت پسند ‏امریکا کا ہر ظلم  افغان عوام کے مقابلے میں قانونی حیثیت کا حامل ہے۔ جب کہ ‏دوسری طرف انہوں نے اپنی سیاسی عدم بلوغت اور معروضی معلومات کے ‏حوالے سے درپردہ اپنی جہالت کو غیرشعوری طور پر عیاں کرتے ہوئے ‏مجاہدین کی بے پناہ قربانیوں کی بدولت رواں مقدس جہاد کو ہمسایہ ملک کی ‏خفیہ شرانگیزی سے تعبیر کیا ہے۔

افغانستان کا ہر شخص اس امر سے بخوبی واقف ہے اور اچھی طرح سمجھتا ‏ہے کہ کابل کا کٹھ پتلی  گروہ افغان عوام  کی طرف سے منتخب حکومت ہرگز ‏نہیں ہے۔ اور  یہ لوگ افغان معاشرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی ‏عوام انہیں اپنا قانونی سربراہ سمجھتے اور کہتے ہیں۔ بلکہ یہ امریکا سے درآمد ‏کیے گئے چہرے ہیں، جو یہاں امریکی مذموم مفادات کی خاطر امریکی وزیر ‏خارجہ جان کیری اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک خاص منصوبے ‏کے تحت افغان مسلمانوں پر مسلط کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ امریکا کا انتخاب ہیں، ‏جب کہ اس منتشر الخیال گروہ کے حکومت کے نام پر قائم غیرقانونی سیٹ اپ ‏کو بھی اقوام متحدہ کے تعاون سے امریکا ہی چلا رہا ہے۔

جب دو ہفتے قبل وارسا کانفرنس  میں اشرف غنی کی شرکت کی بات ہوئی تو ‏ڈاکٹر عبداللہ بھی بچگانہ مزاج کی پیروی کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ‏کہ “میں بھی  اس کانفرنس میں شرکت کا حق   رکھتا ہوں۔ کیوں کہ جان کیری ‏نے  مجھے بھی اشرف غنی کے برابر اختیارات  دیے ہیں۔” اشرف غنی نے ‏‏”چھوٹے صدر” عبداللہ کو منانے کی  بہت  کوشش کی کہ جان کیری نے ‏افغانستان کا صدر مجھے بنایا ہے،  لہٰذا صرف مجھے اس کانفرنس میں شرکت ‏کا اختیار ہے۔ لیکن عبداللہ  کسی طور بھی مان کے نہیں دے رہے تھے۔ یعنی ‏‏”نہیں پاپا! ایسا نہیں ہو سکتا۔ بس مجھے جانا ہی ہوگا۔” بالآخر “کرائے کی ‏حکومت کے دونوں کرائے دار” اس بات پر متفق ہوئے کہ اس مسئلے کو اپنے ‏‏”مالک اقتدار” جان کیری سے حل کراتے ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، ‏ہمیں منظور ہوگا۔ جان کیری نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ “آپ دونوں کانفرنس ‏میں شرکت کر لیں۔”‏

جب ایک شخص خود کو صدر کہتا ہے اور اس کے پاس اس بات کی صلاحیت ‏اور جرات نہیں ہے کہ ایک  عالمی کانفرنس میں اپنے ملک کی   نمائندگی کس ‏طرح کرنی ہے؟ اور تب تک یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتا، جب تک جان کیری ‏تک بات نہ پہنچے تو اس سے زیادہ رسوا، ذلیل اور کاسہ لیس حکمران دنیا کی ‏تاریخ، خصوصا افغانستان میں کہیں نہیں دیکھا گیا۔

اشرف غنی نے انٹریو میں کہا کہ امریکا افغان جنگ میں  شامل نہیں ہے، بلکہ ‏وہ صرف ہماری  مدد کرتا ہے۔ کچھ دیر بعد کہنے لگے کہ اگر وہ جنگ میں ‏حصہ لیتا ہے تو  مجھ سے ضرور اجازت طلب کی جاتی ہے۔

عجیب مخمصہ ہے۔ اگر یہ بات  اشرف غنی کے کسی ترجمان نے کہی ہوتی تو ‏حقائق سے باخبر فرد کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے درجے کا شخص ہے، ‏ممکن ہے ان کے پاس معلومات نہ ہوں۔ لیکن جب ایک  شخص خود کو دنیا کا ‏‏”مفکر ثانی” لیے اور صدر مملکت اور فوج کے کمانڈر جیسے القابات کےساتھ ‏اپنا تعارف کراتا ہے تو جب وہ اس جیسی بے سروپا باتیں کہے تو یہ پوری ‏افغان قوم سمیت مغربی اقوام کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکنے کی کوشش ‏ہے۔ عوام نہیں سمجھ پا رہے کہ غلامی کے اس اعلی مقام کو کس لقب سے ‏نوازا جائے؟!‏

‏ جب دو سال قبل امریکا نے اشرف غنی کو کٹھ پتلی گروہ کی سربراہی بخشی تو ‏تب سے اب تک امریکی بمباریوں، چھاپوں اور براہ راست شہروں پر حملوں ‏میں 3000 افغان شہری شہید ہو چکے ہیں۔ جب کہ ہزاروں افراد کو گرفتار کر ‏کے بگرام اور دوسرے اندھے عقوبت خانوں میں ڈالا ہوا ہے۔ ‏

بات یہ ہے کہ ان تمام جرائم میں امریکا براہِ راست ملوث ہے۔ اشرف غنی نے ‏جان کیری کی بخشی ہوئی سربراہی کی حلف برداری کی تقریب میں افغان ‏شہریوں کے حقوق کا ہر قیمت پر دفاع کرنے کا دعوی کیا تھا۔ عوام پوچھتے ‏ہیں کہ اشرف غنی صاحب نے آج تک امریکی  حکام سے صرف لفظی احتجاج ‏بھی کیا ہے کہ افغان عوام کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا رہا ہے؟ ہماری مساجد، ‏باغات، شادی کی محفلوں، جنازے کے شرکاء اور عام آبادیوں کو ڈرون حملوں ‏کا ہدف کیوں بنا رکھا ہے؟

جب قندوز میں امریکی طیاروں نے   ایک بین الاقوامی تنظیم کے فلاحی ہسپتال ‏پر بمباری کر کے اسے ملیا میٹ کیا اور درجنوں افغانیوں کو شہید کیا، اس ‏حملے پر آپ نے اپنے بڑوں سے احتجاج کیا تھا؟ تحقیقات کا مطالبہ کرنے کی ‏ہمت دکھائی تھی؟ ہر گز نہیں۔ یہ غلام اشرف غنی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ امریکا ہر حملہ آپ کی اجازت سے کرتا ہے تو پھر بات ‏ہی ختم ہو گئی۔ اس سے افغان عوام کے سب سے بڑے قاتل آپ قرار پاتے ہیں۔ ‏ان شاء اللہ وقت آنے پر عوام ایک ایک جرم اور قتل کا حساب لیں گے۔

اشرف غنی نے انٹریو میں بار بار اس بات کی طر ف اشارہ کیا کہ غیرملکی ‏افواج کے خلاف رواں جہاد پاکستان کا ایک منصوبہ ہے۔ لیکن پاکستان اس جہاد ‏کے سلسلے میں کتنا بااختیار ہے، اس امر سے پاکستان سمیت ہر افغان شہری ‏اچھی طرح واقف ہے کہ اگر امریکا اور اس کے کاسہ لیس غلام رواں جہاد کو ‏پاکستان سے منسوب  نہ کریں اور اس عظیم جدوجہد میں بہ تکلف پاکستان کا ‏ہاتھ تلاش نہ کریں تو امریکا اپنے “سپر پاور” کے دعوے کو کس طرح سچا ‏ثابت کر سکتا ہے؟ کیوں کہ ایجنسیوں کی پہنچ سے بہت دور مجاہدین نے ایک ‏عجیب شان سے امریکی طاغوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے اور ان کے ‏تمام جنگی منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔جب کہ دو ٹریلین ڈالر کے اخراجات بھی ‏کوئی نتیجہ نہیں دے سکے۔

اشرف غنی اور امریکا، دونوں مجاہدین کی  ناقابلِ شکست عسکری اور سیاسی ‏صلاحیت پر پردہ ڈالنے اور ہر میدان میں اپنی شکست اور رسوائی  چھپانے ‏کے لیے ایک سستے اور ہر  وقت دستیاب مہرے سے استفادہ کرتے ہوئے ‏کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کام میں پاکستان شامل ہے۔

‏ ہم اشرف غنی اور امریکا سے کہتے ہیں کہ امارت اسلامی بہت سخت  اور ‏سنگین حالات سے کامیابی کے ساتھ سرخ رو ہو کر نکلی ہے۔ اور  تمہارے ‏مختلف جنگی اور سیاسی  حربوں کو کامیابی سے شکست  فاش دے ری ہے۔ ‏اگر اس کے بعد آپ غیرنتیجہ بخش راستوں پر چلتے ہوئے رواں جہاد کی جڑیں ‏کہیں اور  تلاش کرتے ہیں اور آپ کا خیال یہ ہے کہ اس سے آپ کو کامیابی ‏ملے  گی تو ہمیں یقین ہے اس کام سے آپ لوگ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں یا ‏عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش میں ہیں۔ ان شاء اللہ ‏دونوں صورتوں میں ناکامی تمہارا مقدر ہے۔